تاریخ کا سب سے بڑا انسانی معجزہ

جاوید چودھری ، سپر لیڈ نیوز۔ سرن تاریخ کا سب سے بڑا انسانی معجزہ ہے۔ آپ اگر انسانی کوششوں کی معراج دیکھنا چاہتے ہیں تو آپ زندگی میں ایک بار سرن ضرور جائیں، آپ حیران رہ جائیں گے لیکن سرن ہے کیا؟

ہمیں یہ جاننے سے قبل کائنات کے چند بڑے حقائق جاننا ہوں گے۔ہماری کائنات 13ارب 80 کروڑ سال پرانی ہے۔زمین کو تشکیل پائے ہوئے پانچ ارب سال ہو چکے ہیں۔ ہماری کائنات نے ایک خوفناک دھماکے سے جنم لیا تھا۔ یہ دھماکہ بگ بینگ کہلاتا ہے۔ بگ بینگ کے بعد کائنات میں 350ارب بڑی اور 720 ارب چھوٹی کہکشائیں پیدا ہوئیں۔ ہر کہکشاں میں زمین سے کئی گنا بڑے اربوں سیارے اور کھربوں ستارے موجود ہیں۔ یہ کائنات ابھی تک پھیل رہی ہے۔ یہ کہاں تک جائے گی؟ یہ کتنی بڑی ہے اور اس میں کتنے بھید چھپے ہیں ؟ہم انسان تمام تر سائنسی ترقی کے باوجود اس کا صرف 4فیصد جانتے ہیں۔

کائنات کے96فیصد راز تاحال ہمارے احاطہ شعور سے باہرہیں۔یہ96 فیصد نامعلوم بھی دو حصوں میں تقسیم ہیں۔44فیصد حصہ وہ ہے جس کے بارے میں ہم یہ جانتے ہیں کہ ہم اسے نہیں جانتے۔۔ سائنس دان اس 44 فیصد حصے کو ’’ڈارک میٹر‘‘ کہتے ہیں۔ یہ ڈارک میٹر سپر انرجی ہے۔ہمارا سورج اس انرجی کے سامنے صحرا میں ذرے کے برابر ہے۔ سائنس دان کائنات کے باقی 52 فیصد نامعلوم کے بارے میں کہتے ہیں ہم یہ بھی نہیں جانتے کہ ہم اسے نہیں جانتے۔۔ ہمیں کائنات کو سمجھنے کے لیے اس کی بنیاد سمجھنا ہو گی۔

بگ بینگ کیوں ہوا ؟

یہ جاننا ضروری ہے بگ بینگ کیسے اور کیوں ہوا تھا اور اس کے فوری بعد کیا ہوا تھا جس سے کائنات نے جنم لیا ۔انسان کے پاس یہ حقیقت جاننے کے لیے دو طریقے ہیں۔ ہم کوئی ایسی ٹائم مشین بنائیں جو ہمیں 13ارب 80 کروڑ سال پیچھے اس وقت میں لے جائے جب بگ بینگ ہوا اور کائنات وجود میں آنے لگی۔ یہ ظاہر ہے ممکن نہیں۔۔دوسرا طریقہ سائنس دان لیبارٹری میں ’’بگ بینگ‘‘ کریں اور کائنات کی پیدائش کے پورے عمل کا مشاہدہ کر لیں۔یہ طریقہ مشکل ہے لیکن ناممکن نہیں ۔

بگ بینگ اور انسانی انسانی مفروضات کا ایک تخلیاتی عکس ۔ فوٹو کریڈٹ :سائنس جرنل

سرن کیا ہے ؟

سائنس دانوں نے 1952ء میں اس پر کام شروع کر دیا۔اس نادر کام کے لیے جنیواکے مضافات میں فرنے میں جگہ تلاش کی گئی اور سوئٹزرلینڈ اور فرانس دونوں نے مل کر لیبارٹری بنانا شروع کر دی۔ یہ لیبارٹری سرن کہلاتی ہے۔ یہ کام دو ملکوں اور چند سو سائنس دانوں کے بس کی بات نہیں تھی چنانچہ آہستہ آہستہ دنیا کے 38 ممالک کی 177 یونیورسٹیاں اور فزکس کے تین ہزار پروفیسر اس منصوبے میں شامل ہو گئے۔سائنس دانوں نے پہلے حصے میں زمین سے 100 میٹر نیچے 27کلو میٹر لمبی دھاتی سرنگ بنائی۔اس سرنگ میں ایسے مقناطیس اتارے گئے جو کشش ثقل سے لاکھ گنا طاقتور ہیں۔ مقناطیس کے اس فیلڈ کے درمیان دھات کا 21 میٹر اونچا اور 14 ہزار ٹن وزنی چیمبر بنایا گیا۔ یہ چیمبر کتنا بھاری ہے آپ اس کا اندازہ آئفل ٹاور سے لگا لیجیے۔۔ دنیا کے سب سے بڑے دھاتی اسٹرکچر کا وزن 7 ہزار تین سوٹن ہے۔ سرن کا چیمبر اس سے دگنا بھاری ہے۔ اس چیمبر کا ایک حصہ پاکستان کے ہیوی مکینیکل کمپلیکس میں بنا اور اس پر باقاعدہ پاکستان کا جھنڈا چھاپا گیا۔

سائنس دانوں کے اس عمل میں چالیس سال لگ گئے۔ یہ چالیس سال بھی ایک عجیب تاریخ ہیں۔ملکوں کے درمیان اس دوران عداوتیں بھی رہیں اور جنگیں بھی ہوئیں لیکن سائنس دان دشمنی‘ عداوت‘ مذہب اور نسل سے بالاتر ہو کر سرن میں کام کرتے رہے۔ یہ دن رات اس کام میں مگن رہے۔ سائنس دانوں کے اس انہماک سے بے شمار نئی ایجادات سامنے آئیں مثلاً انٹرنیٹ سرن میں ایجاد ہوا تھا۔ سائنس دانوں کوآپس میں رابطے اور معلومات کے تبادلے میں مشکل پیش آ رہی تھی چنانچہ سرن کے ایک برطانوی سائنس دان ٹم برنرزلی نے 1989ء میں انٹرنیٹ ایجاد کر لیا ۔۔یوں www(ورلڈ وائیڈ ویب) سرن میں ’’پیدا‘‘ ہوا اور اس نے پوری دنیا کو جوڑ دیا۔

سرن لیبارٹری کا ایک منظر ۔ فوٹو کریڈٹ :اے ایف پی

سٹی اسکین اور ایم آر آئی بھی اسی تجربے کے دوران ایجاد ہوئی ۔ سرن میں اس وقت بھی ایسے سسٹم بن رہے ہیں جو اندھوں کو بینائی لوٹا دیں گے۔ ایک چھوٹی سی چپ میں پورے شہر کی آوازیں تمام ڈیٹیلز کے ساتھ ریکارڈ ہو جائیں گی۔ ایک ایسا سپرالٹرا ساؤنڈ بھی مارکیٹ میں آرہا ہے جو موجودہ الٹرا ساؤنڈ سے ہزار گنا بہتر ہوگا۔ ایک ایسا لیزر بھی ایجاد ہو چکا ہے جو غیر ضروری ٹشوز کو چھیڑے بغیر صرف اس ٹشو تک پہنچے گا جس کا علاج ہو نا ہے۔ ایک ایسا سسٹم بھی سامنے آ جائے گا جو پورے ملک کی بجلی اسٹور کر لے گا اور سرن کا گرڈ کمپیوٹر بھی عنقریب مارکیٹ ہو جائے گا۔ یہ کمپیوٹر پوری دنیا کا ڈیٹا جمع کرلے گا۔یہ تمام ایجادات سرن میں ہوئیں اور یہ اس بنیادی کام کی ضمنی پیداوار ہیں۔ سرن کے سائنس دان اس ٹنل میں مختلف عناصر کو روشنی کی رفتار (ایک لاکھ 86 ہزار میل فی سیکنڈ) سے لگ بھگ اسپیڈ سے ایک دوسرے سے ٹکراتے ہیں اور پھر تبدیلی کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ یہ عناصر ایٹم سے اربوں گنا چھوٹے ہوتے ہیں۔ یہ دنیا کی کسی مائیکرو اسکوپ میں دکھائی نہیں دیتے۔

سائنس دانوں نے 2013ء میں تجربے کے دوران ایک ایسا عنصر دریافت کر لیا جو تمام عناصر کو توانائی فراہم کرتا ہے۔ یہ عنصر ’’گاڈ پارٹیکل‘‘ کہلایا۔ اس دریافت پر دو سائنس دانوں پیٹر ہگس اور فرینکوئس اینگلرٹ کونوبل انعام دیا گیا۔یہ دنیا کی آج تک کی دریافتوں میں سب سے بڑی دریافت ہے۔

سائنس دانوں کا خیال ہے مادے کی اس دنیا کا آدھا حصہ غیر مادی ہے۔ یہ غیر مادی دنیا ہماری دنیا میں توانائی کا ماخذ ہے۔ یہ لوگ اس غیر مادی دنیا کو ’’اینٹی میٹر‘‘ کہتے ہیں۔یہ اینٹی میٹر پیدا ہوتا ہے۔کائنات کو توانائی دیتا ہے اور سیکنڈ کے اربوں حصے میں فنا ہو جاتا ہے۔

سرن کے سائنس دانوں نے چند ماہ قبل اینٹی میٹر کو 17 منٹ تک قابو رکھا ۔ یہ کسی معجزے سے کم نہیں تھا۔ یہ لوگ اگر ’’اینٹی میٹر‘‘ کو لمبے عرصے کے لیے قابو کر لیتے ہیں تو پھر پوری دنیا کی توانائی کی ضرورت چند سیکنڈز میں پوری ہو جائے گی۔ دنیا کو بجلی اور پٹرول کی ضرورت نہیں رہے گی۔سرن ایک انتہائی مشکل اورمہنگا براجیکٹ ہے اور سائنس دان یہ مشکل کام پچھلے 68سال سے کر رہے ہیں۔