تشدد،ہراسگی کاالزام،فریقین خاموش،مگر پولیس کی پھرتیاں

تشدد،ہراسگی کاالزام،فریقین خاموش،مگر پولیس کی پھرتیاں نمایاں نظر آنے لگیں ۔ طلال چودھری تشدد کیس کا معاملہ مرکز نگاہ بن گیا۔

منگل کی شام پاکستانی میڈیا چینلز پر ن لیگی رہنما طلال چودھری پر تشدد کی خبر چلی ۔ دیکھتے ہی دیکھتے اس خبر نے پاکستانی میڈیا کی ٹاپ سٹوریز میں جگہ بنالی ۔ پولیس کے مطابق طلال چودھری کی رات کے تین بجے کال موصول ہوئی جس میں انہوں نے کہاکہ نامعلوم افراد نے ان پر تشدد کیا ہے ۔ پولیس موقع پر پہنچی تو نامعلوم افراد کا معاملہ اچانک تبدیل ہو گیا۔ طلال چودھری منظر عام سے غائب ہوگئے ۔ اگلے روز سوشل میڈیا پر ان کی ایک تصویر جاری ہوئی جس میں وہ لاہور کے ایک نجی ہسپتال میں زیر علاج پائے گئے ۔ ان کی ویڈیو بھی منظر عام پر آئی جس میں ان کے بازو میں چوٹیں واضح ہیں ۔ اس دوران طلال چودھری نے تشدد کرنے والوں کے حوالے سے تفصیلات نہ بتائیں ۔ نہ ہی مقدمہ درج کرایا۔

دوسری جانب پنجاب حکومت اس کیس پر براہ راست اثر انداز ہوئی ۔ فیصل آباد پولیس نے جائے وقوعہ کا دورہ کیا اور اعلیٰ حکام کو رپورٹ دی کہ یہ گھر ن لیگی ایم این اے عائشہ رجب علی کا ہے ۔ پولیس کے مطابق اس وقت طلال چودھری عائشہ رجب کے گھرمیں موجود تھے ۔ دونوں میں تلخ کلامی کے بعد جھگڑا ہوا جس کے بعد تشدد کامعاملہ سامنے آیا۔ اس دوران مبینہ طور پر عائشہ رجب کے بھائیوں اور اہل خانہ نے طلال چودھری پر تشدد کیا۔ طلال چودھری نے اپنے ابتدائی بیان میں کہا کہ تنظیم سازی کے لئے بلایا گیا تھا مگر نامعلوم افراد نے انہیں بلا کر تشدد کا نشانہ بنایا۔

عزت دار عورت کا تماشہ نہ بنائیں ، طلال چودھری

اپنے دوسرے بیان میں طلال چودھری نے عائشہ رجب سے منسوب واقعے کی تردید کی اور کہا کہ کسی عورت ذات کا تماشہ نہ بنایا جائے ۔ عائشہ رجب کا معاملے سے کوئی تعلق نہیں ۔

اس دوران عائشہ رجب نے بھی ایک ٹویٹ میں وضاحت کی کہ ان کا اس کیس سے کوئی تعلق نہیں ۔ اس معاملے میں نہ الجھایا جائے ۔

انہوں نے کہا کہ وہ عزت دار گھرانے سے تعلق رکھتی ہیں ۔ کسی کی ماں ، بیٹی اور بہن ہیں ۔ یوں واقعے کی کوئی رپورٹ درج ہوئی نہ ابتدائی کارروائی کی درخواست دی گئی ۔ اس واقعے میں طلال چودھری اور عائشہ رجب کے  موضوع بحث آنے پر دونوں نے ہی واضح تردید کر دی ۔ ذرائع کے مطابق لڑائی کے بعد فریقین میں صلح ہو چکی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ دونوں جانب سے پارٹی کی بدنامی کے ڈر سے کوئی بیان بھی سامنے نہیں آرہا۔

پولیس ایک قدم آگے ۔۔

حیرت انگیز طور پر پولیس کا رویہ اس معاملےمیں بہت جارحانہ رہا ہے ۔ فیصل آباد سے پولیس کی ایک ٹیم لاہور کے نیشنل ہسپتال آپہنچی اور طلال چودھری کا بیان ریکارڈ کرنے کی کوشش کی ۔ تاہم طلال اس وقت ہسپتال سے ڈسچارج ہو چکے تھے ۔ ایک ٹیم نے فیصل آباد میں عائشہ رجب کے گھر کا بھی دورہ کیا تاہم  وہ بھی گھر موجود نہ تھیں یوں بیان ریکارڈ نہ ہو سکا۔ پولیس نے اس موقع پر میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ بیان ریکارڈ کرنے کےلئے اسلام آباد بھی جانا پڑا تو جائیں گے ۔

معاملہ سیاسی رنگ اختیار کر گیا

فیاض الحسن چوہان نے اس حوالے سے ایک پریس کانفرنس کی اور طلال چودھری کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ انہوں نے طلال چودھری پر طنز لگاتے ہوئے کہا کہ رات کے تین بجے تنظیم سازی کے لئے جائیں گے تو ہڈیاں ہی ٹوٹیں گی ۔ انہوں نے کہا کہ پنجاب پولیس معاملے کی تہہ تک جائے گی ۔ ن لیگ  کے رہنما نے اپنی ہی جماعت کی خاتون رہنما کو ہراساں کیا جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے ۔ اس سے قبل انہوں نے کہا کہ عائشہ رجب کو سکیورٹی فراہم کی جائے گی  ۔

یہ بھی پڑھیئے:دو لڑکیاں،دوفرضی کہانیاں،پولیس پریشان

طلال چودھری پر تشدد بظاہر سیاسی رنگ اختیار کر چکا ہے ۔ ن لیگ کی مخالف حکمران جماعت نے پولیس کو واضح ہدایات دی ہیں کہ طلال چودھری کا بیان ریکارڈ کیا جائے ۔ میڈیا پر جاری تجزیوں  ، بحث مباحثوں میں بھی یہ عنوان گرم ہے ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تشدد کیس میں جب فریقین ہی کارروائی کو تیار نہیں ۔ تشدد،ہراسگی کاالزام،فریقین خاموش،مگر پولیس کی پھرتیاں ظاہر کر رہی ہیں کہ معاملہ سیاسی رنگ اختیا ر کر چکا ہے ۔