مجھے آخری غسل تم خود دینا ۔۔

مجھے آخری غسل تم خود دینا ۔۔میری ساس سکینہ بی بی نے اپنی اکھڑتی سانسوں کو بمشکل سنبھالتے ہوئے ٹھہر ٹھہر کر یہ جملہ مکمل کیا تو بخدا میں لرز گئی تھی۔

اس وقت وہ میرے گھٹنے پہ سر رکھے لیٹی اپنی آخری سانسیں لیتی وقفے وقفے سے آنکھیں کھول کر مجھے دیکھتیں اور آنکھیں موند لیتیں۔

میں چھوٹی سی چمچ کے ساتھ شہد اور آب زمزم کا شربت ان کے بے جان ہوتے ہوئے ہونٹوں پہ لگاتی رہی۔ جسے وہ کوشش کر کے پی لیتیں۔

کئی منٹ بعد مجھے ایسا لگا جیسے میرے گھٹنے پہ رکھے ان کے سر کا بوجھ بڑھ گیا ہے۔۔

میرے سسر نے آگے بڑھ کر ان کی سانس چیک کی ۔پھر مجھے کہا کہ ان کا سر تکیئے پہ رکھ دیں۔

میں نے اپنے کانپتے ہوئے ہاتھوں سے ان کا سر اپنے گھٹنے سے ہٹا کر تکیئے پہ رکھا ۔ ان کے دودھیا بالوں کو سفید دوپٹے سے ڈھک دیا۔

میری ہمت اور حوصلہ جواب دے چکا تھا۔ میرے سسر نے بتایا کہ ماں جی غشی کے عالم میں ہیں۔

میں فورا وضو کر کے آؤں تاکہ سورت یاسین پڑھ سکوں۔ وہ خود ان کے سرہانے بیٹھ کر سورت یاسین پڑھنے لگے  

رات گئے میری ساس کا انتقال ہو گیا
(اللہ سوہنا ان کو غریق رحمت فرمائے )

ہم واہ کینٹ سے اسلام آباد شفٹ ہوئے تو ہمارا معمول تھا کہ جمعے کی شام کو میرے شوہر کے آفس سےواپس آتے ہی واہ کینٹ آجاتے۔

 میری ساس ایک بڑی ہی ڈاھڈی راجپوت خاتون تھیں۔

دوسرے ایک فوجی کی بیوی تھیں۔ شوہر کی پوسٹنگز ہوتے رہنے کی وجہ سے دونوں بیٹوں ، برادری اور گھر کی دیکھ بھال خود کرتی تھیں ۔

ان کی سلطنت اور خود مختاری کو چیلنج نہیں کیا جا سکتا تھا۔

میں اک پڑھے لکھے اور بھرے پرے خاندان سے آنے والی اس خاندان کی پہلی پڑھی لکھی بہو تھی۔

لہذا ایک دوسرے کے ساتھ ایڈ جسٹ کرنے میں کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔

لیکن بتدریج  انڈرسٹینڈنگ  کے تحت سمجھ لیا کہ کیا کرنا ہے اور کیا نہیں کرنا تاکہ گھر کا سکون برقرار رکھا جا سکے ۔  

میری ساس کو میرے ہاتھ کا بنا کھانا بہت پسند تھا۔

واہ  کینٹ پہنچتے ہی چائے پانی سے فارغ ہونے کے بعد بتاتیں کہ رات کی ہانڈی میں کیا بنانا ہے ۔ میں پوری لگن سے کھانا بناتی۔

کھانا کھانے کے بعد میرے سسر ہمیشہ شاباش دیتے ۔مگر ساس یہ ضرور بتا دیتیں کہ ہرا دھنیا یا ہری مرچیں کچی رہ گئی تھیں۔  

کپڑے وہ صرف میرے خریدے ہوئے پسند کرتیں۔ ان کو ان کے بتائے ہوئے ناپ کے عین مطابق   سینا ” کوہ طور سینا ” سر کرنے کے برابر تھا۔

بہرحال سوٹ سل کر تیار ہوجاتا تو اگلا مرحلہ انھیں غسل کے لئے آمادہ کرنا ہوتا تھا۔ جس کا ذکر ہوتے ہی ان کے ماتھے کی تیوریوں میں اضافہ ہوتا چلا جاتا۔

مگر اس وقت میں انتہائی ڈھیٹ بن کر اس وقت تک ان کے سامنے سے نہ ہٹتی ( بقول ان کے مغروں نہ لہندی ) جب تک کہ وہ غسل خانے تشریف نہ لے جاتیں۔

 ان کے بالوں میں تیل ڈال کر کنگھی کرنا اور چوٹی بنانا تک کہ مراحل ایسے ہی ہوا کرتے تھے جیسا کہ میں ہر ہفتے ایک نیا بچہ جنم دیتی تھی۔۔

وہ مسلسل میری شان میں قصیدے پڑھتی رہتیں اور میں گونگی بہری بنی مسکراتی رہتی۔

پھر انہیں شوگر ہو گئی ۔ چینی سے پرہیز ان کے مزاج کی تلخی میں اضافے کا سبب بنا۔   

میری دیورانی سے ان کی کبھی نہیں بنی ۔ ان کی رشتہ دار ہونے کی وجہ سے اسے بھی ” گل افشانیاں ” کرنے کی عادت تھی ۔

پھر بقول اس کے وہ میری طرح ” میسنی ” نہیں تھی  

خیر سے سیانی اتنی تھی کہ پہلی بارآملیٹ  بنانے لگی تو مجھ سے پوچھا۔۔ بھابی اس میں کتنا پانی ڈالوں ؟  

میں نے حیران ہو کر پہلے اسے اور پھر بڑی توجہ سے سٹیل کے کٹورے میں رکھے اس کے “بدشکل ملیدے” کی طرف دیکھا۔ اور کہا   ایک کپ پانی کافی ہو گا تاکہ انڈے اچھی طرح گل  جائیں ۔

کپڑے سینے اسے آتے نہیں تھے۔ لہذا اپنی قوت پرواز کے زور پر آپ میری ساس اور دیورانی کے درمیان محاذ جنگ کا اندازہ کر سکتے ہیں۔

میری ساس کے بیمار رہنے کی وجہ سے بڑی بہو ہونے کے ناطے میرے سسرال میں میری ذمہ داریاں بڑھ گئیں۔

بزرگوں سے محبت کرنا میرے مزاج کا حصہ ہے۔ لہذا میں اپنی ساس کے قریب ہوتی گئی۔ اس وقت تک میں اسلام آباد ماڈل کالج فار گرلز ایف ٹین ٹو میں اپنی جاب شروع کر چکی تھی۔

اس کے باوجود ہم ہر ویک اینڈ پر واہ کینٹ چلے جاتے۔ میں ان کی فرمائش پہ کھانا بناتی۔ ان کی اپنی دیورانی اور جٹھانی کےنامعقول قصے سنتی رہتی۔

ایسے ہی ایک دن سکول میں تھی جب میرے شوہر نے مجھے فون پہ بتایا کہ ماں جی کی طبیعت زیادہ خراب ہے۔ ہم فورا واہ جارہے ہیں۔

ماں جی کی وفات کے بعد گاؤں اور آس پاس سے رشتہ دار آنا شروع ہوگئے۔ گھر ہر عمر کے مردوں عورتوں سے بھر گیا۔

انجانے کا ایک عجیب سا خوف۔۔

میت کو غسل دینے کا وقت آیا تو میں نے ماں کی وصیت کے مطابق ان کو خود غسل دینے کا فیصلہ کیا۔

میرے اس فیصلے کو اس وجہ سے ناپسند کیا گیا ۔ ایک تو مجھے اس بارے میں کچھ نہیں پتہ تھا اور دوسرے یہ کہ میں اس طرح میت دیکھ ڈر جاؤں گی ۔۔

اور۔۔۔
سچ یہ ہے کہ میں واقعی ڈر گئی تھی۔

ایک اتنی ڈاھڈی عورت کو اس طرح ” پھٹے ” پہ پڑا دیکھنے کے لئے آپ کو واقعی لوہے کا جگرا چاہیے

وہ دن میری سوچوں میں ایک عظیم انقلاب کا دن تھا۔

 اپنی ساس کا آخری حکم بجا لاتے میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ۔۔ ایک انسان کی اصل میں کیا  اوقات   کیا ہے ۔

میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ ” خالی ہاتھ جانا ” کسے کہتے ہیں۔  

اس سچ کا مجھے اتنا صدمہ ہوا کہ چند گھنٹوں کے اندر ہی میں تیز بخار میں جلنے لگی۔ جس پہ کہا گیا کہ دیکھا اب اس پر ” اثر ” ہو گیا  ہے ۔

شام کو میری دیوارنی نے عین اسی جگہ ایک چراغ جلایا جو کہ اس کی امی گاؤں سے ” دم کروا کر ” لائیں تھیں ۔تاکہ کوئی ” روحوں” سے ڈر نہ جائے۔  

میں نے بڑی مشکل سے وضو کیا ۔ سب کے منع کرنے کے باوجود شام کے اترتے اندھیرے میں عین وہیں چارپائی بچھا کر بیٹھ گئی۔

یہ بھی پڑھیئے :بھوک صرف روٹی سے نہیں مٹتی

مختلف تسبیحات پڑھتے ہوئے میں نے اپنی ساس مرحومہ سے اپنی دانستہ و نادانستہ کوتاہیوں کی معافی مانگی۔

جب دعا کرنے کے لئے ہاتھ اٹھائے تو میرا دل ہر خوف سے آزاد ہو چکا تھا۔

ہر سال دسمبر میں جب میں پاکستان جاتی ہوں تو اپنے شہید بھائی اور دیگر رشتہ داروں کی قبروں پہ فاتحہ پڑھنے کے بعد سکینہ بی بی کی قبر پر بھی دعا کے لئے ضرور جاتی ہوں ۔

اللہ سوہنا میری مرحومہ ساس کی مغفرت فرمائے اور ان کی قبر کو ٹھنڈا اور روشن رکھے۔

آمین ثم آمین