قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں کے پی حکومت کے طالبان سے مذاکرات کرنے کے فیصلے کی مذمت

وقت اشاعت :4جنوری2023

ندیم چشتی ، دی سپرلیڈ ڈاٹ کام اسلام آباد۔ قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں کے پی حکومت کے طالبان سے مذاکرات کرنے کے فیصلے کی مذمت کی گئی ۔ وزیر داخلہ  نے واضح کر دیا۔

دی سپرلیڈ ڈاٹ کام کے مطابق وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نےکہا ہے کہ قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں آرمی چیف نے کہا ہے کہ دہشت گردوں سے متعلق بیانیہ کی وضاحت ہونی چاہیے ۔ رانا ثنا اللہ کا دعویٰ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب کے پی حکومت کی جانب سے سوات اور گردونواح میں مبینہ طور پر روپوش طالبان سے مذاکرات کی باتیں زیر گردش ہیں ۔ اس معاملے پر وزیر خارجہ بلاول بھٹو بھی دو ٹوک موقف اپنا چکے ہیں اور عمران خان کو پیغام بھجوا چکے ہیں کہ کے پی حکومت دہشت گردوں سے بات چیت کرنے  سے باز رہے ۔

بلاول بھٹو نےسخت لہجہ اپناتے ہوئے کہا کہ عمران خان ہوتا کون ہے جو دہشت گردوں سے مذاکرات کرے اور سانحہ اے پی ایس کے لواحقین کے زخموں پرنمک چھڑکے ۔ ادھر وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے نجی ٹی وی سے گفتگو میں کہا ہے کہ  قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میںآرمی چیف  نے کہا کہ ثبوتوں کے  ساتھ بات کی جانی چاہیے ۔ وضاحت اس بات کا تقاضہ کرتی ہےکہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان یا دیگردہشت گرد تنظیموں سے مذاکرات نہیں کئے جا سکتے ۔

یہ بات طے شدہ ہے کہ طالبان سے بات نہیں ہوگی ، رانا ثنا اللہ

رانا ثنا اللہ نے کہا کہ ہمیں ذمہ داری کا ثبوت دینا چاہیے ۔ دہشت گردوں سے مذاکرات کے حوالے سے ملے جلے پیغامات نہیں دینے چاہئیں۔ یہ بات طے شدہ ہے کہ دہشت گردوں سے کوئی مذاکرات نہیں ہونگے ۔ اجلاس میں بھی یہ واضح کر دیا گیا ہے کہ ٹی ٹی پی  سے کوئی بات نہیں ہوگی ۔ افغان حکومت سے بھی بات چیت کی جائے گی ۔ سرحد پر چھیڑ چھاڑ کی اجازت نہیں دیں گے ۔ معاملے کو پر امن طریقے سے حل کرنا چاہتے ہیں ۔ پاکستان کا کوئی علاقہ دہشت گردوں کے قبضے میں نہیں، دہشت گرد افغانستان سے آتے ہیں اورکارروائی کرکے  واپس چلے جاتے ہیں ۔ یہ تمام ثبوت افغان حکومت کو دیئے جائیں گے ۔