نئی عرب دنیا کا ظہور۔۔ سب بدل گیا

دی سپر لیڈ رپورٹ

متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کی فلسطین آباد کاری پر تاریخی ڈیل کے بعد مسلم دنیا میں اضطراب پایاجاتا ہے ۔

متحدہ عرب امارات ایسے کیسے کر سکتا ہے ؟ ایک لمحے کےلئے شاید کسی بھی اسلامی ملک کو یقین نہ آئے ۔

لیکن جتنا مرضی شور مچا لیں یہ ماننا تو پڑے گا کہ مسلم امہ کی پالیسی اور ترجیحات موقع کی مناسبت سے بدل رہی ہیں۔

ترکی کا موقف

ترکی کے تخت پر راج کرنے والے طیب اردگان کی پالیسی گزشتہ چند سال کی نسبت تبدیل ہوتی نظر آرہی ہے ۔

طیب اردگان مسلم دنیا میں اپنی اجارہ داری چاہتے ہیں یہی وجہ ہے کہ وہ کمال اتاترک کے بعض نظریات کو غیر ارادی طور پر پیچھے چھوڑ کر نیو ترکی آرڈر لانا چاہتے ہیں۔

اردگان کے ترک ماڈل میں عرب دنیا اور امریکاپر انحصار کے بجائے خطے میں نئے پارٹنر تلاش کرنا ہے ۔

ترکی اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات رکھتا دہے تاہم سرد مہری عیاں ہے ۔

اسی طرح ترک صدر امارات کے ولی عہد کی محمد بن سلمان کے ساتھ قربت سے بھی خائف نظر آتے ہیں۔

یوں یہ کہاں جا سکتا ہے کہ ترکی مسلم امہ کی تشکیل نو کر کے نیا بلاک چاہتا ہے اور خود کو سربراہ کے طور پر دیکھنا چاہتا ہے ۔

تاہم یقینی طور پر اس خواب میں بہت سی رکاوٹیں حائل ہیں۔

ترک صدر نے حال ہی میں متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کی ڈیل کو منافقانہ قرار دیا ہے۔

انہوں نے جاری بیان میں متحدہ عرب امارات کے کردار کی مذمت کی اور کہا کہ اسلامی ملک سے ایسے منافقانہ رویہ کی توقع نہ تھی۔

ترکی کی جانب سے امارات کو منافق کہنے پر سوالات کی بھرمار ہے ۔تل ابیب میں ترک سفارتخانہ فعال ہے ۔

اسی طرح انقرہ میں بھی اسرائیلی پرچم لہرا رہا ہے۔ ایسے میں تضاد تو ترک صدر کی پالیسیوں سے بھی عیاں ہے ۔

ترک صدر نے متحدہ عرب امارات کو منافق قرار دیا ہے ۔فوٹو کریڈٹ:آر ٹی

سوشل میڈیا پرہی اس حوالے سے گرما گرم بحث طول پکڑ رہی ہے ۔ بعض صارفین نے سوال اٹھایا ہے کہ ترکی خود دوہرا معیار دکھا کر امت مسلمہ میں مزید تفریق کا باعث بن رہا ہے ۔

اگر ترکی متحدہ عرب امارات سے ناراض ہے تو اسرائیل سے سفارتی تعلقات ختم کیوں نہیں کرتا ؟

متحدہ عرب امارات کا ردعمل

متحدہ عرب امارات کے وزیر خارجہ انور قرقاش نے کہا ہے کہ بعض مسلم ممالک سے ایسے ہی ردعمل کی توقع تھی ۔

اماراتی حکومت اس کے لئے تیار تھی ۔ انہوں نے کہا کہ ہم پر پہلے بھی اسرائیل سے مذاکرات پر بہت دباؤ تھا۔ اس لئے ہم نے سوچا کہ جو ہوگا دیکھا جائے گا۔

متحدہ عرب امارات فلسطین کے عوام کا خیال رکھنا چاہتی ہے ۔ اس ڈیل سے اسرائیل یہودی آباد کاری منصوبے کو ترک کر چکا ہے ۔ یوں بہت بڑی کامیابی مل گئی ہے ۔

یہ بھی پڑھیئے :اسرائیلی اماراتی بھائی بھائی ۔۔ پاکستان کیا کرے گا؟

محمد بن سلمان کی محتاط پالیسی

سعودی اور اماراتی ولی عہد کی دوستی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ۔ دونوں رہنما تواتر سے رابطے کرتےہیں ۔

بعض تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ ایم بی ایس کی پالیسیوں میں شہزادہ محمد بن زایدکا اہم کردار ہے ۔دونوں رہنما ترقی پسند ہیں اور روایتی سیاست پر یقین نہیں رکھتے ۔

اہم مغرب اور بڑی طاقتوں سے تعلقات میں توازن رکھنا دونوں رہنماؤں کی بنیادی پالیسی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ حالیہ ڈیل میں محمد بن سلمان کی جانب سے کوئی مذمت سامنے نہیں آئی ۔

یوں یہ کہا جا سکتا ہے کہ مستقبل قریب میں محمد بن سلمان بھی کوئی سرپرائز دینے کی صلاحیت رکھتےہیں۔

ڈیل سے کس کو فائدہ ہوگا ؟

متحدہ عرب امارات کی جانب سے اسرائیل کو قبول کرنا کوئی معمولی فیصلہ نہیں ۔ اس فیصلے نے نئی عرب دنیا کی بنیاد رکھ دی ہے۔

ڈیل سے دونوں ممالک ایک دوسرے کے قریب آئیں گے ۔ سیاحت کافروغ ہوگا جس سے سالانہ ساڑھے 5ارب ڈالر کا منافع ہوگا۔

تعمیرات کے شعبے میں سالانہ دس ارب ڈالر تک کی سرمایہ کاری متوقع ہے ۔ اسرائیلی کمپنیاں متحدہ عرب امارات میں سرمایہ کاری کریں گی۔

جبکہ متحدہ عرب امارات بھی اسرائیل میں سرمایہ کاری کو فروغ دے گا۔

صنعت، باہمی ثقافتی تعاون ، دفاعی آلات ،سرجیکل آلات سمیت دیگر شعبوں میں بھی تعاون بڑھے گا۔

گوکہ ابھی باہمی تعاون سے ہونے والی آمدن کا تخمینہ مشکل ہے تاہم بعض رپورٹس سے اندازہ ہوتا ہے کہ تجارت اور تعاون اربوں ڈالروں کا کھیل ہے ۔