السلام علیکم پاکستان۔۔

منمیت کور شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں ۔ برطانوی ایوارڈ یافتہ ہیں ۔ عالمی امور، انسانی حقوق اور سماجی ایشوز پر لکھتی ہیں۔ انہیں ٹویٹر پر فالو کیا جاسکتا ہے

آپ آزاد ہیں۔۔آپ آزاد ہیں اپنے مندروں میں جانے کے لیے۔ آپ آزاد ہیں اپنی مسجدوں میں جانے کے لیے اور ریاست پاکستان میں اپنی کسی بھی عبادت گاہ میں جانے کے لیے۔ آپ کا تعلق کسی بھی مذہب ذات یا نسل سے ہو۔ ریاست کا اس سے کوئی لینا دینا نہیں ۔۔
چودہ اگست کے موقع پر پوری قوم نے جوش و جذبے سے آزادی کا جشن منایا۔ہر گلی محلے میں آزادی کے جشن کی گونج واضح دیکھی گئی ۔

ایسے میں پاکستان کی سکھ کمیونٹی بھی کسی سے پیچھے نہ رہی ۔ آزادی کا کیک کاٹا گیا۔پشاور میں تو سکھ کمیونٹی نے ریلی بھی نکالی اور بانی پاکستان محمد علی جناح کی لازوال عظمت کو سلام پیش کیا ۔

ساتھ ہی آزادی کے اس قافلے میں شامل دیگر قائدین کو بھی سلام پیش کیا ۔سکھ کمیونٹی نے سبز ہلالی پرچم تھام کر ہمیشہ کی طرح یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ پاکستان اقلیتوں کا بھی ہے ۔ ۔ اتنا ہی ہے جتنا دیگر پاکستانیوں کا ہے ۔

میں بیان نہیں کرسکتی کہ دن کے آغاز میں ہی ایک عجب سا جذبہ دل میں سمویا ہوا محسوس ہوتا ہے ۔ سکھ کمیونٹی پاکستان کی ترقی میں شانہ بشانہ محنت کر رہی ہے ۔

ایسے میں یہ خاص دن آزادی کے جذبےاوروطن کی حفاظت کے لئے ہر قربانی دینے کے مشن کی بھی تجدید کرتا ہے ۔
بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی گیارہ اگست کی تقریر درحقیقت ایک ضابطہ اور بہتر مستقبل کی نوید سناتی ہے ۔

وہ پاکستان جہاں سب کو بنیادی حقوق میسر ہوں ۔ایک ایسا پاکستان جہاں اقلیتیں اپنی عبادات اور رسم و رواج کے لئے آزاد ہوں۔

میں یہ بتاتے ہوئے بہت فخر محسوس کرتی ہوں کہ اس ملک میں سکھ کمیونٹی کو حقوق حاصل ہیں ۔ صرف پشاور کو ہی دیکھ لیں ۔۔ جہاں کئی سکھ خاندان آزادانہ رہ رہے ہیں اور ملکی ترقی کے لئے ہر قدم پر محنت کو اپنا نصب العین بنا تے ہوئے آگے بڑھ رہے ہیں ۔

میں فخر کے ساتھ یہ بھی کہتی اور مانتی ہوں میں پاکستان میں بہت پیار ملا ۔پشاور میں ہی تربیت پائی ۔ زمانہ طالب علمی یاد ہے جب بچپن میں ہی قائد اعظم محمد علی جناح کے افکار پڑھنے کو ملتے تھے۔ اس وقت شاید زیادہ تو سمجھ نہیں آتی تھی کہ قائد کی تعلیمات کا مقصد کیا ہے ؟تاہم دیگر کلاس فیلوز کی طرح رٹا ضرور لگا لیتی تھی۔

یہ بھی پڑھیئے : کیا ایسے ہی مرنے دیں ؟

اب زندگی کے نشیب و فراز کے بعد سمجھ آگئی ہے کہ قائد کا ایک ایک لفظ روشن مستقبل کی ضمانت ہے ۔ بانی پاکستان کا کہا ایک ایک فقرہ روح کی گہرائی میں اترتا محسوس ہوتاہے ۔
ہم اپنی عبادت گاہوں میں جانے کےلئے آزاد ہیں۔ یہ آزادی بہت بھلی لگتی ہے ۔ اس پر خوشی ہے اور فخر بھی ہے ۔

بچپن میں قائد اعظم کی تقاریر سمجھ نہیں آتی تھیں مگران کلمات کی
اہمیت سمجھ میں آئی ۔ منمیت

کرتار پور راہداری کا افتتاح شاید زندگی کے بہترین دنوں میں سے ایک تھا۔ اپنے سامنے ایک تاریخ بنتی دیکھنا قابل فخر تھا۔

وزیراعظم عمران خان نے یقینا بہت بڑا قدم اٹھایا۔ اپنی عبادت گاہوں میں آزادی سے جینا کسی نعمت سے کم نہیں ۔ اور کرتار پور کی خوشی تو درحقیقت ایک روحانی خوشی تھی جو ناقابل بیان ہے ۔
چودہ اگست کے موقع پر سکھ برادری جہاں عبادت گاہوں میں ملکی سلامتی کے لئے دعائیں کرتی ہیں وہیں اس مرتبہ کشمیریوں کے لئے بھی خصوصی دعائیں کی گئیں ۔
ایک جانب تو یہاں مذہبی آزادی حاصل ہے لیکن دوسری جانب کشمیر کی صورتحال مختلف ہے ۔ میرا دل یہ سوچ کر ہی ڈوبنے لگتا ہے کہ وادی کے مسلمانوں پر کیا بیت رہی ہوگی ۔

آخر کشمیری تو وہاں اقلیت میں شمار ہیں ۔ ان کو اپنی عبادت گاہوں میں بھی جانے کی مکمل آزادی نہیں۔

گردوارہ دربار صاحب کرتارپور
 یہاں سکھ مذہب کے بانی بابا  گرو نانک مقیم ہوئے اور زندگی کے آخری ایام یہیں گزارے
۔فوٹو کریڈٹ:پاکستان آرکائیوز

کرفیو کے حالات میں خوشی اور غم کے تہوار کیسے ہوتے ہونگے ؟ نہ شادیوں پر رونق ،خوشیاں اور نہ ہی کسی غم جنازے پر لوگ اکھٹے ہو سکتے ہونگے ۔۔

یہاں بھی کبھی کبھار محض چند لوگ شرارتیں کرتے ہیں ، دلوں کو میلا کرنے کی کوشش کرتے ہیں مگر وہ مٹھی بھر لوگ کامیاب نہیں ہو پاتے ۔۔

شاید اسکی وجہ بھی قائد کی وہ تقایر ہیں جومیں نے بچپن میں رٹے لگا کر یاد کی تھیں ۔ یعنی اپنی جذبےاور خلوص میں کمی نہ آنے دی جائے ۔ جو لوگ جیسا برا چاہتےہیں ان کو اپنے مشن پر چلنے دو۔۔

ایک دن خود ہی ناکام ہو جائیں گے ۔
اسی نظریہ پر چلتے ہوئے سکھ کمیونٹی پاکستان سے اپنی محبت کم کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتی ۔ ہم گلی محلوں میں رہنے والے بچوں کے ساتھ مل کر اپنی گلیوں کو سجاتے ہیں۔

سبز اور سفید جھنڈیوں سے دلوں کی ترجمانی کرتے ہیں ۔ جس دن گلیوں کو سجانا ہو اس دن مسلمان ہمسائیوں کے گھر بھی سجا دیئے جاتے ہیں۔

اسی طرح ہمارے مسلمان پڑوسی بھی ہمارے گھر سجاتے ہیں ۔ یوں ہر طرف سبز اور سفید رنگ چھا جاتا ہے ۔
یوم آزادی کا ایک دن تو کیا ۔۔ پورا مہینہ ہی جوش و جذبےسے بھرپور ہوتا ہے ۔ مختلف اقلیتوں کی جانب سے تقاریب کا انعقاد کیاجاتا ہے۔

یہ سب آزادی کے رنگ ہیں جو اس بات کا مظہر ہیں کہ سکھ کمیونٹی پاکستان میں آزادہے۔