مجھ پرظلم کے35سال کون واپس دےگا؟

ندیم چشتی ، دی سپر لیڈ ، اسلام آباد ۔ مجھ پرظلم کے35سال کون واپس دےگا؟ یہ کہانی ہے اسلام آباد کے جیل نما چڑیا گھر کے ایک ہاتھی کی جو 35سال سے  انتظامیہ کے ناروا سلوک کی بھینٹ چڑھ رہا ہے ۔

سپر لیڈ نیوز کے مطابق کاون نامی ہاتھی کی پاکستان سے بے دخلی کا فیصلہ ہو چکا ہے ۔

یہ فیصلہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب اسلام آباد ہائیکورٹ مسلسل حکام کی سرزنش کرتے ہوئے ہاتھی کو آزاد کرنے کا حکم دیا ہے ۔

اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس  نے ڈائریکٹر زواور وزیربرائے ماحولیات کو بلا کر شدید برہمی کا اظہار کیا ۔ عدالت نے واضح کیا کہ اگر چڑیا گھر انتظامیہ اس ہاتھی  کی نگہداشت نہیں کر سکتی تو باہر بھجوا دے جہاں اس کی جان بچ جائے ۔

اس  سلسلے میں کاون کا نیا گھر کمبوڈیا کا نیشنل پارک ہوگا ۔جہاں وہ آزاد فضاؤں میں سانس لے سکے گااور باقی ماندہ زندگی گزار سکے گا۔

آزادی قریب مگر کاون کی مشکلات برقرار

 چڑیا گھر انتظامیہ نے اب ہاتھی کو کمبوڈیا منتقل کرنے کا حتمی فیصلہ تو کرلیا ہے۔ لیکن کاون کی مشکلات اب بھی جوں کی توں ہیں ۔اس ملک سے آزادی پانے کے لئے اب بھی اس کی جان کو خطرہ ہے۔ یہ خطرہ کم ہونے کا نام نہیں لے رہا۔

 یہ بے زبان ہاتھی انصاف تو مانگنے سے رہا لیکن اب پھر ایک نئی مصیبت میں پھنس گیا ہے ۔

اسلام آباد سے خصوصی طیارے کے ذریعے ہاتھی کو کمبوڈیا منتقل کرنے کی تیاریاں مکمل ہیں ۔

کاون نے زندگی کے 35سال تنہا گزارے ۔ مادہ نہ ملنے پر مشتعل رہا۔ فوٹوکریڈٹ:دی سپر لیڈ

غیر ملکی ڈاکٹروں کا پینل اسلام آباد میں موجود ہے۔ جو یومیہ بنیادوں پر کاون کی حرکات کا باریک بینی سے جائزہ لے رہاہے ۔ ڈاکٹروں نے اسے جہاز میں سوار کرانے سے پہلے اس کے جسم کے نمونے لینے ہیں۔

ہاتھی کے طبی معائنے کے لئے خون کے نمونوں کی ضرورت ہے ۔ لیکن کئی سالوں سے ظلم برداشت کرنے والا کاون کسی کو اپنے قریب آنے کی اجازت نہیں دے رہا۔

خون کے نمونے لینے کا پیچیدہ طریقہ

کاون کے جسم سے خون کے نمونے لینے کے لئے اسے بے ہوش کرنے کا پروگرام ہے ۔ لیکن اسے بے ہوش کرنا بھی  آسان نہیں ۔ انتظامیہ نے فیصلہ کیا ہے کہ اسے دوا دینے کے بجائے کرنٹ لگا کر نیم بے ہوش کیا جائے گا۔ جس کے بعد ڈاکٹر قریب آکر اس کے جسم سے بڑی سرنج کی مدد سے خون نکالیں گے ۔

خون نکالنے کا یہ عمل انتہائی پیچیدہ ہے ۔ اس سلسلے میں کاون کے پنجرے کے ساتھ ہی ایک لوہے کا بڑا پنجرہ تیار کیا گیا ہے ۔

پلان کے مطابق کاون کو پھلوں کا لالچ دے کر جنگلے میں لایا جائے گا جس کے بعد اسے کرنٹ لگا دیا جائے گا۔

کاون کے اس طرح سے خون نکالنے کے عمل میں خطرات اور پیچیدگیاں بہت ہیں ۔ مثال کےطور پر اگر کاون کو مقررہ جھٹکوں سے زیادہ کرنٹ لگ گیا تو اس کی جان کو خطرہ ہوگا۔

اسی طرح اگر کاون بھپر گیا تو کیا صورتحال بنے گی ۔ اس کاجواب بھی کسی کے پاس نہیں ۔

سپر لیڈ نیوز نے انتظامیہ کے اہلکارسے معلومات لیں۔انہوں نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ کاون کو فنڈز کی کمی کے باعث ماضی میں اس کا ساتھی نہ مل سکا۔

کاون مسلسل اکیلے رہنے کے باعث ہمیشہ مشتعل رہا

کاون جب بچہ تھاتو اسلام آباد لایا گیا تھا۔ بغیر مادہ کے طویل عرصے ایک ہی جگہ  رہنے کی وجہ سے اس کی طبیعت میں اشتعال پایا جاتا ہے جو کہ فطری ہے ۔

کئی مرتبہ اعلیٰ حکام کو ایک مادہ ہاتھی لانے کی درخواست کرچکے ہیں مگر کسی نے کبھی کوئی توجہ نہیں دی ۔

یہی وجہ ہے کہ ماضی میں بعض مواقع پر اس کی خوراک میں الکوحل ڈال کردی جاتی رہی تاکہ کاون مدہوش رہے اور زیادہ مشتعل نہ ہو۔

انہوں نے بتایا کہ ماہرین کی ٹیم نے کاون کو منتقل کرنے کےلئے تمام تر تیاریاں مکمل کر لی ہیں ۔ اس کی منتقلی میں کوئی مشکلات پیش نہیں آئیں گی ۔

کاون کی خوراک میں پرسکون رکھنے کے لئے الکوحل بھی دی جاتی رہی

اسلام آباد ہائیکورٹ کے حکم نامے کے بعد اسلام آباد وائلڈ لائف مینجمنٹ بورڈ کی آٹھ رکنی کمیٹی قائم کی گئی ہے جو کاون کی بحفاظت نئے گھر منتقلی کے عمل کو دیکھ رہی ہے ۔

کاون نئے گھرمیں پرسکون رہے گا

اس کمیٹی کے سینئر ممبر جاوید اقبال نے سپر لیڈ نیوز سے خصوصی بات چیت میں بتایا کہ کمبوڈیا میں جانوروں کی پناہ گاہ میں کاون جیسے 80 سے 90لاوارث ہاتھی پہلے سے موجود ہیں جہاں ان کی افزائش ہو رہی ہے ۔

کاون کو نیا گھر پسند آئے گا۔ کاون کی منتقلی کے بعد کمبوڈیا کی اس پناہ گاہ میں بھی اس کا معائنہ کیا جائےگا۔

انہوں نے کمبوڈیا کی پناہ گاہ کے حوالے سے تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ وہاں انتظامات بہترین ہیں ۔

ڈاکٹروں کا پینل موجود ہے ۔ کاون کےلئے اس سے بہتر کوئی جگہ نہیں ۔

اسلام آباد کے مرغزار چڑیا گھر میں سہولیات کا شدید فقدان ہے ۔ معزز عدالت نے باقی جانوروں کی بھی منتقلی کا حکم دے رکھا ہے ۔

الوداع پاکستان ۔۔ اب میں کبھی نہیں لوٹ سکوں گا

کاون اپنی زندگی کا بڑا حصہ اسلام آباد مرگلہ کی پہاڑیوں کے پاس پرفضا مقام پر بنے چڑیا گھر میں گزار چکا ہے ۔

فنڈز کی قلت، تربیت کی کمی اور حکام کی غفلت  کے باعث بے زبان جانور ساری زندگی ایک مادہ ہتھنی کا منتظر رہا۔

انتظامیہ نے اس ہاتھی کی مدد سے خود تو بہت کمائی کی مگر کسی نے نہیں سوچا کہ بے زبان جانور کے بھی کچھ حقوق ہیں ۔بعض مواقع پر یہ بھی اطلاعات آئیں کہ انتظامیہ جانوروں کو مناسب خوراک تک مہیا نہ کر پائی ۔  

پوری دنیامیں کاون خبروں کی زینت بھی بنا یہاں تک کے جانوروں کے حقوق کے لئے کام کرنے والی تنظیموں  نے بھی آواز اٹھائی مگر کسی بھی حکومت نے کوئی خیال نہ کیا۔

امریکی گلوکارہ چیئر نے خصوصی طور پر کاون کے حقوق کی آواز اٹھائی جبکہ پاکستانی فنکار بھی اس حوالے سے سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر آواز اٹھاتے رہے ۔

امریکی گلوکارہ چیئر نے خصوصی طور پر کاون کی رہائی کے لئے سوشل میڈیا پر مہم چلائی ۔ فوٹو کریڈٹ ، چیئر ٹویٹر

اب کاون پاکستان چھوڑ کر جارہا ہے مگر اس کا دل شاید اس ظلم کو کبھی فراموش نہ کرپائے ۔