اسلاموفوبیاکےخلاف عالمی دن کامطالبہ کتناقابل عمل؟

فرزانہ گل ،دی سپر لیڈ ، واشنگٹن ڈی سی ۔ اسلاموفوبیاکےخلاف عالمی دن کامطالبہ کتناقابل عمل؟ یہ دن کیسے مقرر ہوگا ؟اسلام کے علاوہ دیگر مذاہب کیسے اس خاص دن کو قبول کریں گے ؟ وزیراعظم کا مطالبہ موضوع بحث بن گیا۔

وزیراعظم عمران خان نے جنرل اسمبلی سے خطاب میں اسلاموفوبیا  پر دوسری مرتبہ کھل کر بات کی ۔ اس سے پہلے  گزشتہ سال کی تقریر میں بھی عمران خان نے اس موضوع کو خاصی اہمیت دی ۔ اس مرتبہ  عمران خان نے دنیا بھر کے رہنماؤں کو اس مسئلے کا حل نکالنے کا مشورہ دے دیا۔

اسلامو فوبیا کیاہے ؟

اسلاموفوبیا سے مراد مذہب اسلام کی تعلیمات اور مسلمانوں کے اعمال کو بطور  باعث خوف پیش کر کے اس کے خلاف رائے عامہ تشکیل دینا ہے ۔ کبھی کبھار اسلاموفوبیا کی بنیاد پر ہی نسل پرستانہ حملے اور دہشت گرد کارروائیاں بھی سامنے آتی ہیں ۔ یورپ اور امریکا میں اسلاموفوبیا سے جڑے واقعات رپورٹ ہوتے رہتے ہیں جس کا اثر زائل کرنے کے لئے مقامی مسلم کمیونٹی متحرک رہتی ہے ۔

نیوزی لینڈ کی وزیراعظم نے بارہا اپنے ملک میں بڑھتے اسلاموفوبیا کی تردید کی ۔ فوٹو کریڈٹ :رائٹرز

اسلاموفوبیا کی اصطلاع کا استعمال 1976سے چلتا آرہا ہے ۔ لیکن امریکا میں نائن الیون کے سانحے کے بعد اسلاموفوبیا دنیا بھر میں پھیلتا دیکھا گیا ہے ۔ یورپی ممالک میں بھی نائن الیون کے بعد اسلامو فوبیا پھیلا ۔ جبکہ  نیوزی لینڈ میں سانحہ کرائسٹ چرچ کو اسلاموفوبیا کے تناظر میں لیا گیا ہے ۔ گو کہ نیوزی لینڈ کی وزیراعظم نے بارہا اپنے خطابات میں اس تاثر کی تردید کی  ۔ وزیر اعظم جسینڈا کے مطابق یہ ایک انفرادی دہشت گردی کی کارروائی تھی ۔ نیوزی لینڈ میں اسلاموفوبیا کا کوئی رجحان نہیں ۔

دیگر مذاہب کے خلاف بھی نفرت آمیز کارروائیاں جاری

اسلاموفوبیا کے ساتھ بعض مسلمان ممالک میں دیگر مذاہب کے خلاف بھی نفرت انگیز کارروائیاں جاری ہیں ۔ پاکستان میں ہی دیگر مذاہب کے خلاف کارروائیوں اور نفرت آمیزی کے درجنوں واقعات رپورٹ ہو چکے ہیں ۔  مسیحی برادری کئی مرتبہ اسی نفرت انگیزی کا نشانہ بنی ۔ جب سانحہ یوحنا آباد، مسیحی گرجا گھروں کو جلائے جانے جیسے واقعات رپورٹ ہوئے ۔ اسی طرح مسیحی برادری کو مذہب کی بنیاد پر ٹارگٹ کرنے کے واقعات بھی ہیں ۔

لاہور میں احمدیوں کی عبادت گاہوں میں بھی قتل عام کے واقعات رپورٹ ہوئے ۔  بعض مواقع پر ذاتی رنجش پر توہین مذہب کا الزام لگا کر مقدمات بھی بنائے جانے کے انکشافات ہوئے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ کی جانب سے مذہبی آزادی اور اقلیتوں کی صورتحال  پر رپورٹ میں پاکستان اور بھارت کا بالخصوص ذکر کیا گیا ہے ۔

سالانہ  پانچ ہزار ہندو پاکستان چھوڑنے پر مجبور

تیرہ مئی 2014کی بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق سالانہ پانچ ہزار ہندو پاکستان چھوڑنے پر مجبور ہیں ۔ برطانوی نشریاتی ادارے نے اس وقت   پاکستان ہندو کونسل کے سربراہ ڈاکٹر رمیش کمار  کے خیالات کا حوالہ دیا ۔ ڈاکٹر رمیش کمار نے کہا کہ ملک میں اقلیتی مذاہب سے تعلق رکھنے والا کوئی شخص محفوظ نہیں ۔  حکومت اقلیتوں کی عبادت گاہوں اور ان کی مذہبی کتابوں کو تحفظ فراہم کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے۔ انہوں نے کہا کہ  چند دن قبل صوبہ سندھ کے علاقے شکارپور میں نامعلوم افراد نے ہندوؤں کی ایک مذہبی کتاب کو آگ لگا کر اس کی بے حرمتی کی۔

پاکستان کی سپریم کورٹ کا بھی اس حوالے سے ایک از خود نوٹس موجود ہے جس میں عدالت عظمیٰ نے  وفاقی حکومت کو حکم جاری کیا تھا  کہ ملک میں بسنے والی اقلیتوں کی عبادت گاہوں کے تحفظ کے لیے خصوصی پولیس فورس تیار کی جائے۔

عدالت نے یہ از خود نوٹس پشاور میں ایک گرجا گھر پر ہونے والے خودکش حملوں کے علاوہ چترال میں کیلاش اور اسماعیلی فرقے کو دھمکیاں ملنے کے واقعات پر لیا تھا۔

چترال میں کیلاش اور اسماعیلی فرقے سے تعلق رکھنے والے افراد کو دھمکیاں دی جارہی تھیں کہ وہ اسلام قبول کریں ورنہ مرنے کے لیے تیار ہو جائیں۔

اس از خود نوٹس سے متعلق دیے گئے فیصلے میں ہندو لڑکیوں کو زبردستی بھگا کر لے جانے اور اُنھیں اسلام قبول کروانے کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔  

مذہب کے نام پر قتل و غارت کے خلاف عالمی دن

یورپی ممالک میں نائن الیون کے بعد اسلاموفوبیا میں نمایاں اضافہ ہوا۔
فوٹو کریڈٹ:الجزیرہ ٹی وی

مذہب کے نام پر قتل و غارت کے خلاف عالمی دن موجود ہے ۔اس دن کو منانے کا مقصد محض مذہب کے نام پر مارے جانے والے افراد سے اظہار یکجہتی کرنا ہے ۔ یہ دن بائیس اگست کو منایا جاتا ہے ۔ اس دن کو 2019میں پہلی دفعہ منایا گیا تھا۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے اپنے پیغام میں واضح کیا کہ دہشت گردوں کا ایجنڈا عالمی سطح پر ناقابل قبول ہے ۔ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھنے والا فرد دیگر مذاہب کے لئے قابل احترام ہونا چاہیے ۔ ہم سب دہشت گردوں کا نشانہ بننے والے افراد کے ورثا کے ساتھ ہیں ۔ ان کے دکھ میں برابر کے شریک ہیں ۔

دیگر ممالک کیسے عمران خان کا اسلاموفوبیا کے نظریہ پر ساتھ دیں گے؟

سپر لیڈ نیوز سے گفتگومیں انسانی حقوق کے کارکن ، سوشل میڈیا ایکٹویسٹ ڈاکٹر فرحان رضا نے کہا کہ پاکستان میں اقلیتوں کی صورتحال بہتر نہیں ۔ حال ہی میں مذہبی دباؤ پر اسلام آباد میں  ہندو مندر کی تعمیر روکنا پڑ گئی ۔ حکومت اس کی کوئی ٹھوس وجہ پیش نہ کر سکی ۔ دیگر مذاہب کے خلاف کارروائیاں سب کے سامنے ہیں ۔ ایسے میں عمران خان کا خود کو عالمی اسلامی لیڈر کے طور پر پیش کرنا اور اسلاموفوبیا پر بات کرنا مضحکہ خیز ہے ۔

یہ بھی پڑھیئے:جنرل اسمبلی کے اجلاس میں آن لائن لڑائیاں

انہوں نے کہا کہ یقینا اسلاموفوبیا کا تاثر زائل کرنا ہر اسلامی لیڈر کی ترجیح ہونی بھی چاہیے ۔ لیکن اس کے لئے خود مثال بننا بھی ضروری ہے ۔ آپ اپنے ملک میں مذہبی آزادی دیں اور دیگر مذاہب کا احترام عملی طور پر کر کے دکھائیں پھر ہی آپ کاموقف پذیرائی سمیٹ سکتا ہے ۔

عمران خان کا مطالبہ ناقابل عمل ۔۔

ڈاکٹر فرحان نے مزید کہا کہ یہ درست ہے بعض ممالک میں اسلام مخالف پراپیگنڈہ ناقابل برداشت ہے ۔ مذہب کی تعلیم تو امن کی ہے ۔ اسلاموفوبیا میں مغربی اقوام کی تحقیق کمزور ہے ۔  ہر مسلمان دہشت گردی  ، نفرت انگیزی اور تشدد کی مذمت کرتا ہے ۔ ایک گمراہ کن ٹولے کو بنیاد  بنا کر پورے مذہب کو برا کہنا افسوسناک اور ناقابل قبول ہے ۔پاکستان میں دیگر مذاہب کے خلاف نفرت آمیزی کے تناظر میں بظاہر یہ ممکن نظر نہیں آرہا کہ عمران خان کا یہ مطالبہ پذیرائی حاصل کر پائے ۔

وزیراعظم کا اسلاموفوبیا کے خلاف عالمی دن  رکھنے کا مطالبہ کتنا قابل عمل؟ اس سوال کے جواب میں  انہوں نے کہا کہ بظاہر نا قابل عمل  مطالبہ ہے ۔ ایسے تو ہر مذہب کہے گا ہمارے خلاف نفرت آمیزی پر بھی ایک دن رکھ دیاجائے ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ہر ملک مذہبی رواداری  کو فروغ دے اور نیک نیتی سے بین المذاہب ہم آہنگی کے لئے کام کرے ۔ بہتر یہی ہے کہ عمران خان پہلے اپنے ملکی حالات پر توجہ دیں ۔

One thought on “اسلاموفوبیاکےخلاف عالمی دن کامطالبہ کتناقابل عمل؟

Comments are closed.