حکومت کی جانب سے اچانک لاک ڈاؤن پر سوالات اٹھنے لگے

حکومت کی جانب سے اچانک لاک ڈاؤن پر سوالات اٹھنے لگے ۔ این سی او سی نے اہم اجلاس میں ہنگامی طو رپر بڑے فیصلے کر لئے ۔تعلیمی اداروں کو بھی بند کر دیا گیا ۔

 این سی او سی کے مطابق کورونا کی نئی لہر سےپنجاب میں صورتحال خراب ہو گئی ہے ۔ لاہورکے16،راولپنڈی کے4 اور گجرات کے 17 علاقوں میں سمارٹ لاک ڈاؤن  لگ گیا ہے ۔شاپنگ مالز،ریسٹورنٹ ،نجی و سرکاری دفاتر بھی بند رکھنے کا اعلان کیا گیا ہے ۔  بعض حساس علاقوں میں علاقہ مکینوں کی نقل وحمل  محدود  ہوگی ۔

انتہائی ضرورت کے پیش نظر ایک فرد کوباہرجانےکی اجازت ہوگی۔ہرقسم کے اجتماعات پر پھر پابندی لگا دی گئی ہے ۔ تنور اور پٹرول پمپس  نوبجےسے شام سات بجے تک کھلے رہیں گے اسی طرح پندرہ اپریل تک مزارات بھی بند ہونگے تاہم میڈیکل سٹورز ،  دودھ کی دکانیں اور بیکریاں پابندی سے مستثنیٰ ہونگی ۔

تاجر تنظیموں کا مارکیٹیں بند کرنے سے انکار

دوسری جانب تاجروں نے پابندیوں کو مسترد کر دیا ہے ۔ تاجر رہنما نعیم میر نے پریس کانفرنس میں حکومت کےآگے مزاحمت کا اعلان کیا ۔ انہوں نے کہا کہ دنیا بھر میں لاک ڈاؤن ختم ہو رہےہیں اور یہاں الٹی گنگا بہہ رہی ہے۔ کاروبار آگے ہی تباہ ہو چکےہیں ایسے میں حکومت کی جانب سے دکانیں بند کرانے کا فیصلہ سازش سے کم نہیں ۔

تاجر تنظیموں نے فیصلہ ماننے سے صاف انکار کیا ہے ۔ فوٹو کریڈٹ:بی بی سی اردو

اس حوالے سےانجمن تاجران لاہور کے جنرل سیکرٹری چودھری یعقوب گجر نے سپر لیڈ نیوز سے گفتگو میں  کہا کہ سمجھ نہیں آرہی حکومت کو اچانک لاک ڈاؤن کی کیا سوجھی ۔ یومیہ ایک ہزار کیسز رپورٹ ہو رہےہیں ایس او پیز پر عمل کے بجائے شہر کے شہر بند کردینا حکومت کی جانب سے  مشکوک نیت کی عکاسی کر رہا ہے ۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اگر پی ڈی ایم کے لانگ مارچ کے تناظر میں یہ فیصلہ کیا گیا ہےتو ایسے سیاسی فیصلوں کو قوم پہلے بھی مسترد کر چکی ہے ۔