ہارٹ آف ایشیا کانفرنس ،پاکستان ماضی کےمقابلے میں کتنا پیچھے ہے ؟

وقت اشاعت:31مارچ2021

ہارٹ آف ایشیا کانفرنس میں پاکستان  ماضی کےمقابلے میں کتنا پیچھے ہے ؟ سفارتی میدان میں گہری نظر رکھنے والے تجزیہ کاروں نے صورتحال مایوس کن قرار دے دی۔

سپر لیڈ نیوز کے مطابق ہارٹ آف ایشیا کانفرنس دوشنبے  میں شروع ہوچکی ہے ۔ شاہ محمود قریشی نے اپنے خطاب میں روایتی موقف اپناتے ہوئے امن کی بات کی اور جنگ سے گریز کا مشورہ دیا۔ انہوں نے  افغان امن مذاکرات   کو درپیش خطرات سے بھی دنیا کو خبردار کردیا۔

انہوں نے کہا کہ  افغان قیادت کے لئے ایک تاریخی موقع ہے کہ وہ مذاکرات کے ذریعے مسئلے کا حل تلاش کرے۔ افغان قوم کے لئے اس تاریخی موقع کے ساتھ ساتھ سنگین خطرات بھی موجود ہیں،انہوں نے افغانستان میں بڑھتے ہوئے تشدد پر بھی  تشویش کااظہار کیا۔

کانفرنس کے موقع پر وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے    افغان ہم منصب محمد حنیف آتمر سے بھی  ملاقات کی جس کا کوئی خاص ایجنڈا نظر نہیں آیا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق یہ ملاقات محض رسمی تھی ۔ اسی طرح ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف بھی رسمی اندازمیں ملے کوئی خاص ایجنڈے پر بات نہ ہوسکی ۔ عرب نیوز کے مطابق بھارتی وزیر خارجہ بھی اس موقع پر موجود تھے مگر پاکستانی وزیر خارجہ سے ملاقات کا کوئی امکان نظر نہیں آیا۔

اشرف غنی کانفرنس میں مرکز نگاہ

کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے افغان صدر  اشرف غنی نے امریکا طالبان معاہدے کو لویہ جرگے سے منظور کرانے کی شرط رکھ دی ۔ اشرف غنی نے کہا کہ  افغان آئین  میں  ترمیم کےلیے  کمیشن بنانے کو تیار ہیں ۔ پہلے جنگ بندی کی جائے  پھر نئی حکومت بنانے کا طریقہ طے کیا جائے  ۔

  چین کے  وزیر خارجہ وانگ ژی نے  اپنے خطاب میں تمام فریقین   پر زور دیا کہ  دہشتگرد تنظیموں کے خلاف مشترکہ  جنگ کی جائے۔ایرانی وزیر خارجہ نے کہا کہ  افغانستان کا مستقبل افغان عوام طے کریں ۔

بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے کہا کہ  افغانستان میں پائیدار امن کے لیے افغانستان کے اندر اور اس کے پڑوس میں امن ضروری ہے  ۔ جے شنکر کا اشارہ پاکستان کی جانب تھا تاہم انہوں نے نام لینے سے گریز کیا۔

سفارتی ناکامیاں جان نہیں چھوڑ رہیں ۔۔

اس حوالے سے سپر لیڈ نیوز سے گفتگو میں تجزیہ کار، سابق سفارتکار احتشام قریشی نے کہا حالیہ دنوں  میں سفارتی ناکامیاں ہی نظر آرہی ہیں ۔ ہارٹ آف ایشیا کانفرنس میں پاکستان مرکز نگاہ  نہیں ہے ۔

ماضی میں پاکستان فرنٹ لائن پر رہا ہے  افغانستان میں امن کےلئے پاکستانی رائے کو معتبر سمجھا گیا مگر اب پاکستان پیچھے رہ گیا ہے ۔ اس کی واضح مثال بعض ممالک سے بڑھتا تناؤ ہے ۔ ایران اور پاکستان ایک پیج پر نہیں ہیں ۔ چین کا جھکاؤ ایران کی جانب نظر آرہا ہے گو کہ چین سی پیک پر وضاحت پیش کر چکا ہے مگر ایران سے طویل المدتی معاہدہ جھکاؤ کی عکاسی کر رہا ہے ۔

انہوں نے کہا کہ امریکی انتظامیہ بھی سرد مہری دکھا رہی ہے ۔ عمران خان کو ماحولیاتی کانفرنس میں ورچوئل طور پر حصہ نہ بنانا بائیڈن کے عزائم واضح کر رہا ہے ۔ دوسری جانب اشرف غنی بھی خوش نہیں  ۔ ایسے میں مجموعی صورتحال مایوس کن ہے ۔