افغانستان کے 85اضلاع پر طالبان پھر قابض، خطرے کی گھنٹی بج گئی

وقت اشاعت :25جون2021

ندیم رضا، سپر لیڈ نیوز، واشنگٹن ڈی سی ۔ افغانستان کے 85اضلاع پر طالبان پھر قابض، خطرے کی گھنٹی بج گئی ، اشرف غنی نے واشنگٹن میں بائیڈن انتظامیہ کو ساری صورتحال سے آگاہ کر دیا۔

سپر لیڈ نیوز کے مطابق11 ستمبر کو امریکی اور نیٹو افواج کے مکمل انخلاکی تاریخ سےپہلے ہی طالبان نے پھر اپنی طاقت دکھانا شروع کر دی ہے ۔ تقریبا 85اضلاع میں طالبان نے گرفت مضبوط کر لی ہے۔ سب سے خطرناک بات یہ ہے کہ مقامی انتظامیہ نے طالبان کو واپسی پر خوش آمدید کہا ہے ۔ بعض اضلاع میں افغان فورسز کے ساتھ مقامی آبادی نے بھی طالبان کے خلاف ہتھیار اٹھا لئے ہیں ۔ طالبان نے غزنی میں قرباغ کے علاقے کا کنٹرول سنبھال لیا ۔ یہ وہی علاقہ ہے جہاں سے نیٹو فورسز نے شدید بمباری کے بعدطالبان کے متعدد ٹھکانے تباہ کردیئے تھے ۔ یہاں سے طالبان کو پسپائی اختیار کرنا پڑی تھی۔ اب فورسز کے نکلتے ہی یہاں طالبان نے  قبضہ کرلیا ۔

فاریاب میں گریزیوان اور اروزگان صوبے میں طالبان کی بڑھتی طاقت

امریکی میڈیا کے مطابق کچھ روز قبل اسی علاقےمیں طالبان اور افغان فورسز میں جھڑپ بھی ہوئی ہے۔ جس میں افغان فورسز کا بھاری جانی نقصان ہوا ہے ۔ اسی طرح طالبان نے پیش قدمی بڑھاتے ہوئے  فاریاب میں گریزیوان اور اروزگان صوبے میں اپنی طاقت دکھائی ہے ۔ طالبان ترجمان  نے دعویٰ کیا ہے کہ ان علاقوں میں مکمل کنٹرول حاصل کرلیا گیا ہے ۔  

واضح رہے کہ اقوام متحدہ کی خصوصی سفیر ڈیبورا لائنز نےگزشتہ ہفتےکہا تھا، مئی کے بعد سے جنگجوؤں نے افغانستان کے 370 اضلاع میں سے 50 اضلاع پر قبضہ کرلیا ہے ۔ ان کے مطابق افغانستان میں لڑائی بڑھنے سے دور اور نزدیک کے بہت سے ملکوں پر اثر پڑے گا۔

اشرف غنی کی بائیڈن سے پہلے پینٹاگون کے عہدیداروں سے آف دی ریکارڈ ملاقاتیں

سپر لیڈ نیوز کے مطابق اشرف غنی نے جو بائیڈن سےملاقات سے پہلے پینٹاگون حکام سے ملاقاتیں کی ہیں ، جس میں انہوں نے طالبان کے بڑھتے اثر رسوخ سے آگاہ کیا ہے ۔ امریکی میڈیا کے مطابق اشرف غنی طالبان کی کابل کی جانب ممکنہ چڑھائی سے پہلےامریکہ کی حمایت چاہتے ہیں ۔ یہ حمایت عسکری تعاون کے ساتھ ساتھ مالی فنڈز کی صورت میں بھی ہوسکتی ہے ۔

وال سٹریٹ جرنل کی ایک رپورٹ کے مطابق افغان صدر طالبان کی پیش قدمی سے خاصے پریشان دکھائی دیتے ہیں۔ وہ بائیڈن سے ایسی کوئی گارنٹی چاہتے ہیں ، جس کی رو سے انہیں یہ یقین ہو کہ طالبان کے بڑے حملے کی صورت میں امریکہ بھرپور مدد کرے گا۔