سکیورٹی کونسل کے اہم ترین اجلاس سے پاکستان آؤٹ ، الزام کس کو دیں ؟

وقت اشاعت :8اگست 2021

ندیم رضا، دی سپر لیڈ ڈاٹ کام، واشنگٹن ڈی سی۔ سکیورٹی کونسل کے اہم ترین اجلاس سے پاکستان آؤٹ ، الزام کس کو دیں ؟سفارتی حلقوں میں بحث طول پکڑ گئی ۔

دی سپر لیڈ ڈاٹ کام کے مطابق اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل میں افغان مسئلے پر اہم ا جلاس  میں پاکستان کو مدعو نہ کیا گیا۔ پاکستان نے براہ راست اس اجلاس میں شرکت کی درخواست کی تھی جسے مسترد کر دیا گیا۔ اس اجلاس میں افغان مندوب نے پاکستان پر طالبان نوازی کا پھر الزام لگایا اور امن خراب کرنے کا ذمہ دار قرار دیا۔ مندوب نے جنرل ضیا سے لے کر مشرف اور اس کے بعد جرنیلوں کے نام لے کر الزامات لگائے ۔

دوسری جانب پاکستانی دفتر خارجہ نے اجلاس  میں نہ بلانے پر افسوس کا اظہار کیا ہے ۔ ترجمان دفتر خارجہ نے کہا افغانستان کے قریب ترین ہمسائے کے طورپر پاکستان کو  سکیورٹی کونسل اجلاس میں نہ بلانا افسوسناک ہے ۔ ترجمان دفتر خارجہ کے مطابق عالمی برادری افغان امن عمل میں پاکستان کے کردار کا اعتراف کرچکی ہے ۔صدر سلامتی کونسل نے اجلاس میں پاکستان کو اپنا نکتہ نظر اور تجاویز پیش کرنے سے روکا  ہے ۔ سلامتی کونسل کا پلیٹ فارم پاکستان مخالف بیانیہ پھیلانے کے لئے استعمال ہونے دیا گیا۔  اجلاس میں افغانستان کے نمائندے کے گمراہ کن پراپیگنڈے اور بے بنیاد الزامات سختی سے مسترد کرتے ہیں۔ واضح رہے کہ سکیورٹی کونسل کے موجودہ صدر بھارتی ہیں ۔

افغان مسئلے پر مسلسل پاکستان پر الزام ،اقوام متحدہ میں  مستقل مندوب کا اظہار تشویش

پاکستان نے سلامتی کونسل کے ارکان کو اس معاملے پر اپنے نکتہ نظر اور موقف سے آگاہ  کرنے کے لئے سفارتی مہم شروع کر دی ہے ۔  پاکستان کےمستقبل مندوب منیراکرم کہتے ہیں یہ انتہائی افسوسناک ہے کیونکہ پاکستان افغانستان کا پڑوسی ملک ہے۔ پاکستان کےمستقبل مندوب منیراکرم نے اپنے ٹویٹ میں کہا کہ افغانستان کے امن واستحکام میں پاکستان براہ راست فریق ہے، مگر ہمارا موقف سلامتی کونسل میں سننے سےانکارکیا گیا ۔

بھارتی لابی مضبوط ، پاکستان  کی آواز  مدھم ، الزام کس کو دیں ؟

اس حوالے سے دی سپر لیڈ ڈاٹ کام سے گفتگو کرتے ہوئے تجزیہ کار سہیل رانا نے کہا کہ بھارت کی اقوام متحدہ میں لابی بہت مضبوط ہے ۔ بظاہر موجودہ حکومت سفارتی محا ذمیں ناکامی سے دوچار ہے ۔ موجودہ  حکومت نے اپنے راستے خود بند کئے ہیں ۔

ہر جگہ ناکامی کے بعد اس طرح کی خبروں میں کوئی حیرانی کی بات نہیں ۔ ایک طرف ان کا قومی سلامتی کا مشیر خود بے بسی کا اظہار کرتا ہے  اور ٹی وی پر آکر کہتا ہے صدر  بائیڈن فون نہیں کرتے ،تو دوسری جانب ان کا وزیر خارجہ فیٹف  کے خلاف بولتا ہے۔سفارتکاری دھیمے مزاج سے ہوتی ہے ۔ لابنگ ضروری ہوتی ہے ۔

بدقسمتی سے وزیراعظم خود اپنے ہی سفیروں کو  براہ راست سرکاری ٹی وی پر ڈانٹ ڈپٹ کر اپنے خلاف کر چکے ہیں ۔ ایسے میں افغانستان کے مسئلے پر وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ اس حکومت نے پاک فوج  کے اقدامات  کو بھی ثبوتاز کیا ہے ۔

پاک فوج نے اس جنگ میں بہت قربانیاں دی ہیں مگر اب ستم ظریفی دیکھیے کہ افغانستان کا ہمسائیہ ہونے کے باوجود کوئی پاکستان کی بات سننے کو تیار نہیں ۔ انہوں نے کہا کہ ابھی بھی وقت ہے حکومت پاکستان کو دانشمندی سے آگے بڑھنا ہوگا۔ دوسری جانب عسکری حلقوں کو بھی روایتی پالیسی میں تبدیلی لانے کی ضرورت  ہے ۔ اب معاشی ترقی کا دور ہے ۔