ڈاکٹرپرویزہودبھائی،پاکستان کاایک قابل فخر سائنسدان

اسلم صدیق ، دی سپر لیڈ ، اسلام آباد۔ ڈاکٹرپرویزہودبھائی،پاکستان کاایک قابل فخر سائنسدان ۔۔سائنس کے میدان میں پیچھے رہ جانے والے پاکستان میں پرویز ہود بھائی جیسے لوگ ہی امید کی کرن ہیں ۔

خوابوں کی تکمیل کے لئے مزید خواب دیکھنا انسانی فطرت ہے ۔البتہ  پرویز ہود بھائی خوابوں کو حقیقت کا روپ دینے کے لئے مزید خواب دیکھنے کے قائل نہیں تھے ۔

اپنی محنت ، بلند عزم اور قابلیت کی بنا پر آگے بڑھنے کی لگن انہیں دنیا کی اس عظیم درسگاہ کے دروازے تک لے آئی تھی ۔۔جہاں تک پہنچنا ہی ایک طالب علم کا خواب ہوتاہے ۔ پرویز ہود بھائی نے کراچی گرائمر سکول سے اے لیول کا امتحان پاس کیا۔ ایم آئی ٹی امریکا میں داخلہ ملنے کے بعد ایک نیا میدان ان کے سامنے تھا۔۔

ایسا میدان جہاں وہ اپنی صلاحیتوں کے جھنڈے گاڑنا چاہتے تھے ۔ پرویز ہود بھائی کو اپنی تعلیم مکمل کرنے کے لئے اپنا خرچ  خود اٹھانا پڑا۔

اس دوران انہوں نے ایک ریسٹورنٹ میں نوکری کی اور اپنی اجرت سے تعلیمی اخراجات پورے کئے ۔ 1971 میں ہود بھائی نے اپنی تعلیمی کامیابی کا کچھ اس طرح ثبوت دیا  کہ ایک ہی سال میں دومرتبہ گرایجویٹ ہوئے ۔ یعنی ریاضیات اور الیکٹریکل انجینئرنگ میں نمایاں گریڈز کے ساتھ کامیابی سمیٹی ۔

سائنس کا سفر۔۔

سائنس کا میدان ہود بھائی کا پسندیدہ ٹھہرا۔ 1973میں سالڈ سٹیٹ فزکس میں دلچسپی لینے کی وجہ سے انہوں نے ماسٹرز بھی اسی مضمون میں کیا۔

اپنی قابلیت کی بنا پر پرویز ہود بھائی نے  نیوکلیئر فزکس میں پی ایچ ڈی کر کے اہل علم کی توجہ حاصل کرلی ۔ اس سے پہلے پرویز ہود بھائی اسلام آباد کی قائد اعظم یونیورسٹی  میں بطور محقق کام شروع کر چکے تھے ۔ جبکہ سکالر شپ کے تحت امریکا میں بھی پی ایچ ڈی کا سفر جاری تھا۔

پرویز ہود بھائی ایم آئی ٹی امریکا سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری لے چکے ہیں ۔ فوٹو کریڈٹ :بینا سرور

پرویز ہود بھائی اب “ڈاکٹر” تھے ۔ سائنس کو سمجھنا اور سمجھانا پرویز ہود بھائی کا مشن نظر آرہا تھا۔ لیکن وطن سے محبت اور یہاں کے طلبہ کو سائنس میں ترقی یافتہ بنانا ہود بھائی کا مشن تھا۔

یہ بھی پڑھیئے : آئیے ٹائم مشین کے سفر پر نکلیں

یہی وجہ ہے کہ انہوں نے بیرون ملک  پرکشش تنخواہوں اور مراعات کی نوکریوں کے بجائے پاکستان کو ترجیح دی اور  لاہور کی یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کے شعبہ فزکس  میں نوکری شروع کی۔

ڈاکٹر عبدالسلام کے ساتھ ٹیم ورک

ڈاکٹر پرویز ہود بھائی کی  کوانٹم فیلڈ تھیوری، پارٹیکل فینو مولوجی اور سُپر سائمیٹری کے شعبہ جات میں تحقیق درست سمت میں آگے بڑھ رہی تھی ۔ایسے میں ایک اور عظیم پاکستانی سائنسدان ان کی رہنمائی کرنے کے لئے موجود تھا۔

ڈاکٹرعبد السلام سے ملاقات کے بعد پرویز ہود بھائی کے تجربات اور مشاہدات ایک  نئی سمت  پر گامزن ہوئے ۔ پرویز ہود بھائی نے ڈاکٹر سلام کی تشکیل کردہ ٹریسٹی  انٹرنیشنل سینٹر فار تھیوریٹکل فزکس (اٹلی) میں شمولیت اختیار کرلی ۔

پرویز ہود بھائی ڈاکٹر عبد السلام کے ساتھ دوران انٹرویو ۔فوٹو کریڈٹ :پی ٹی وی آرکائیوز

یہ سنٹر سائنسی تحقیق  کے مقاصد کےلئے قائم کیا گیا تھا جس کے بانی ڈاکٹر سلام ہی تھے ۔۔جو یہی مرکز اسلام آباد میں قائم کرنا چاہتے تھے ۔ تاہم حکومت پاکستان کی عدم دلچسپی کے باعث انہیں  دیگر ممالک نے پیشکش کی جس کے بعدقرعہ  ٹریسٹی کے نام نکلا ۔ 1970کی دہائی میں پرویز ہودبھائی کو ڈاکٹر عبد السلام کی زیر نگرانی متعدد سائنسی امور پر کام کرنے کا موقع  ملتا رہا۔۔

ہود بھائی اور ایٹمی پروگرام

سال 1976 میں پاکستان کے ایٹمی پروگرام میں بھی ان کی گہری توجہ تھی ۔ ہود بھائی مختلف نیوکلیئرسوسائٹیزسے رابطے میں رہے ۔ تاہم وہ ڈاکٹرعبدالقدیرخان کے بعض امورسے اختلافات رکھتے تھے ۔

یہ وہ دور تھا جب ڈاکٹرپرویز ہود بھائی  ایک بہترین سائنسدان کے روپ میں سامنے آچکے تھے ۔ سائنس کے میدان میں کچھ کر دکھانےکی جستجو کے حامل  طلبہ ان کو اپنا بہترین استاد مانتے تھے ۔ قائد اعظم یونیورسٹی میں بطور ہیڈ آف فزکس ڈیپارٹمنٹ  انہوں نے ہزاروں طلبہ کو سائنسی علم کی روشنی سے منور کیا۔1999میں پرویز مشرف کےد ور حکومت کے آغاز میں ہی انہوں نے نیشنل سنٹر آف فزکس کی بنیاد رکھی ۔

این سی پی کو پرویز ہود بھائی ، ڈاکٹر اشفاق احمد اورڈاکٹر ریاض الدین  کی کوششوں سےہی کامیاب بنایا گیا ۔ متعدد سائنسدان اس سنٹر کا حصہ بنے ۔

پرویز ہود بھائی ایٹمی ٹیکنالوجی کے پر امن استعمال کے حامی رہے ۔ وہ اس ٹیکنالوجی کو جنگی مقاصد  سے جوڑنا انتہائی خطرناک  مانتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ اپنے متعدد لیکچرز میں وہ بارہا بھارت کو الزام دیتے نظر آئے جس کے ایٹمی تجربات نے پاکستان کو بھی جواب دینے پر مجبور کیا ۔

تعلیمی میدان میں متنازع کیوں ٹھہرے ؟

ڈاکٹر پرویز ہود بھائی سائنسدان ہونے کے ساتھ ساتھ ایک ماہر تعلیم ، استاد بھی ہیں۔ پاکستان کے تعلیمی نظام پر بولنا ان کا حق ہے ۔ معاشرے کو سدھارنے کےلئے جاہلیت ختم کرنے کی تحریک چلانا ان کی شخصیت کا فطری پہلو ہے ۔ انتہا پسندی ، دہشت گردی کے خلاف لکھنا اور بولنا ان جیسے سائنسدانوں کے گویا خون میں شامل ہے ۔

یہ کہاں کا انصاف ہے کہ ایک سائنسدان صرف سائنس پر تو دھیان دے ، مقالے لکھے ، تحقیق پر تحقیق کرے ۔۔ عالمی ایوارڈز لیتا چلا جائے ۔۔مگر معاشرے کو سائنسی اصولوں پر لانے کےلئے میدان میں نہ اترے ؟

کوئی یہ بھی بتائے کہ کیسا اعتراض ہے کہ تنخواہ کے عوض بس تعلیم تو دے مگر معاشرے  میں تعلیمی بگاڑ پر خاموش بیٹھا رہے ؟ یہ اعتراض بھی معقولیت سے کوسوں دور ہے کہ پرویز ہود بھائی معاشرے کی اصلاح نہ کریں ، کسی مباحثے میں حصہ نہ لیں ۔۔

یکساں نظام تعلیم پر اعتراض

پرویز ہود بھائی موجودہ حکومت کی یکساں نظام تعلیم پالیسی کے بڑے ناقد کے طور پر سامنے آئے ہیں ۔ اپنی مختلف تحاریر ،مضامین اور انٹرویوز میں وہ اس پالیسی پر کھل کر بول چکے ہیں ۔

انصاف پسند حلقے پرویز ہود بھائی کے موقف کو درست مانتے ہیں ۔ پرویز ہود بھائی ماضی کی ایسی مثالوں کا حوالہ دیتے نظر آتے ہیں  جس کی رو سے  یکساں نصاب کو ہمیشہ ناکامی ملی ۔

 مثال کے طور پر ایک خاندان اپنے بچے کو خلائی سائنس کی تعلیم دینے کے لئے ناسا میں کام کرانے کا خواہش مند ہے ۔ اب بتا دیں نئے نصاب کی رو سے ، ایف اے ، بی اے یا ایم اے کے یکساں نصاب میں سلیکشن کی کہاں گنجائش ہے ؟

اس بچےکا رجحان ہی خلائی تسخیر ہے مگر آپ کا یکساں نصاب زیادہ “اختیاری”رجحانات کی حوصلہ شکنی کر رہا ہے ۔ چین اور ترکی جیسے ممالک بھی اب انگریزی زبان کے فروغ کے لئے کام کررہے ہیں ۔ جبکہ آپ انگریزی کو لازمی کیٹیگری سے نکال رہے ہیں  ۔

 اسی طرح  نئے نصاب میں اعلیٰ تعلیم اور اوسط درجے کی تعلیم کا فرق ختم کرنے کی کوشش ہورہی ہے ۔ پانچوں انگلیاں کیسے برابر ہوسکتی ہیں ؟ امیر اور غریب کا فرق کیسے ختم ہو سکتا ہے ؟ پوری ملکی قیادت ، سیاستدان ، مذہبی رہنما بیرون ملک تعلیم حاصل کرنے والے اپنے بچوں کو پاکستان لانے کا اعلان کریں گے کیا؟؟

ہود بھائی اخلاقی جنگ جیت چکے ۔۔

پرویز ہود بھائی کے اعتراضات سو فیصد معقول معلوم ہوتے ہیں ۔ اسی طرح ایچ ای سی پر کڑی تنقید بھی دلائل کی جنگ جیتنی نظر آتی ہے ۔ ہود بھائی کے مطابق ایچ ای سی کا مقصد معیار تعلیم بڑھانا نہیں ۔۔ تعداد بڑھانا ہے ۔ اور ہم دیکھ رہے ہیں کہ ایچ ای سی نظام تعلیم کو درست کرنے میں ناکام ثابت ہوا ہے ۔

لمز یونیورسٹی ہو یا ایف سی کالج ۔۔ پرویز ہود بھائی دلائل کی جنگ اخلاقی طور پر جیت کر فاتحانہ اندازمیں اپنے مشن پر گامزن ہیں ۔ ایک جونیئر استاد جسے سائنس کی بنیاد ہی نہیں معلوم ۔۔ کیسے سائنس کا پرچار کرسکتا ہے؟ ٹپ ٹاپ خاتون اساتذہ محض اچھی تقاریر اور مفروضوں کی بنیاد پر کیسے 40سالہ تجربے کو شکست دے سکتی ہیں ؟ایم آئی ٹی کا پی ایچ ڈی سکالر کیسے لمز کے بعض انتہا پسند اساتذہ سے شکست تسلیم کر سکتا ہے ؟

پرویز ہود بھائی غیر ملکی ٹی وی تجزیہ دیتے ہوئے ۔ فوٹو کریڈٹ:ٹی آر ٹی

دنیا جس کی معترف ہو ۔۔ گورے جس کو مانتے ہوں ۔۔ سائنس کی دیوی جس پر مہربان ہو۔۔ وہ کیسے اپنے مشن کو بھول کر اس گمراہ کن ٹولے کی ہاں میں ہاں ملا کر اصولوں پر سمجھوتہ کر سکتا ہے ۔۔! ہم ایک نوبل انعام یافتہ عظیم سائنسدان کو  دھتکار کر کھو چکے ہیں ۔۔ ہمیں سائنس کے فروغ کے لئے پرویز ہود بھائی جیسے گوہر نایاب کو سنبھال کر رکھنا ہوگا۔۔!

ڈاکٹر پرویز ہود بھائی کے اعزازات، کارنامے

 

  • ریاض الدین نیشنل سینٹر آف فزکس کے بورڈ کے ایک  ایگزیکٹو ممبر
  • بلیٹن آف دی اٹامک سائنٹسٹس کے سپانسر بورڈ کے ارکان
  • پاکستان میں سائنسی علوم کی اشاعت اور سائنسی سوچ اجاگر کرنے کی کوششوں کے صلے میں  UNESCO‘s Kalinga Prizeسے نوازا گیا۔
  • پرویز ہودبھائی کی ٹیلی وژن فلم “The Bell Tolls for Planet Earth” نے پیرس فلم فیسٹیول میں اعزاز حاصل کیا۔
  • پاکستانیت: پاکستانی علوم کا ایک جرنل، کے ا  یڈیٹوریل بورڈ کے ارکان

اس کے علاوہ انہوں نے یہ اعزازات بھی وصول کیے:

  • 1972ء میں امریکا کی پاکستان Students Association سے Student of the Year کا اعزاز
  • 1973ء میں گریجوئیٹ تعلیم حاصل کرنے کے لیے Rockefeller Mauze کی فیلو شپ
  • 1984 میں ریاضی کے میدان میں ری سرچ ورک کے لیے عبد السلام ایوارڈ
  • 1986 سے 1994 تک کے عرصے میں Associate of the International Centre for Theoretical Physics
  • 1990ء میں پاکستان میں تعلیم عام کرنے کی کوششوں  اور تعلیمی مسائل اجاگر کرنے سبب انہیں فیض احمد فیض ایوارڈ سے نوازا گیا۔
  • 1993ء میں پاکستان کی نیشنل بک کونسل کی جانب سے “بُک آف دی ییئر ” کا ایوارڈ دیا گیا۔
  • 1997 سے 1998 تک کے عرصے میں یونیورسٹی آف میری لینڈ، کالج پارک میں ریسرچ کی خدمات انجام دیتے کے باعث انہیں Fulbright Award دیا گیا۔
  • 2003ء میں Selma V. Forkosch Prize
  • International Advisory Council of the Brookings Doha Center
  • 2007ء میں Civic Courage Award
  • 2010ء میں Joseph A. Burton Award ملا