چین کے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کے مقابلے میں زیادہ بہتر اور بڑا منصوبہ موضوع بحث ، سعودی عرب بھی شامل

وقت اشاعت:10ستمبر2023

ندیم رضا، دی سپرلیڈ ڈاٹ کام ، واشنگٹن ڈی سی ۔ چین کے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کے مقابلے میں زیادہ بہتر اور بڑا منصوبہ موضوع بحث، سعودی عرب بھی حصہ بن گیا۔

دی سپرلیڈ ڈاٹ کام کے مطابق بھارتی  وزیر اعظم نریندر مودی نے جی ٹوینٹی اجلاس میں تاریخی منصبوبے کا اعلان کیا ہے جس کے بعد دنیا بھر میں یہ خبر  موضوع بحث ہے ۔ اس منصوبے کے تحت  امریکہ، سعودی عرب اور یورپی ممالک باہمی تجارت کے لئے موثر انداز میں ریل اور سڑک کے منصوبے کے ذریعے منسلک ہونگے  اور تجارت کے فروغ کے لئے کام کریں گے ۔ نئی دہلی میں ’انڈیا-مشرق وسطی- یورپ اکنامک کوریڈور‘ کا اعلان  دنیا بھر کی  نظر میں ایک تاریخی معاہدہ قرار پایا ہے ۔

امریکی صدر جو بائیڈن نے  اس کوریڈور  وک ایک ایسا معاہدہ کہا ہے جس سے دنیا بھر میں خوشحالی کی امید جاگے گی۔  بائیڈن نے اس حوالے سے کہا کہ  یہ بہت بڑی ڈیل ہے جو دو براعظموں کی بندرگاہوں کو جوڑ کر تاریخ رقم کرے گی ۔ مشرق وسطیٰ میں زیادہ خوشحالی، استحکام اور ہم آہنگی ہوگی جس سے سب فائدہ اٹھائیں گے ۔

یورپ کیسے اس منصوبے سے فائدہ اٹھائے گا؟

اس راہداری منصوبے سے یورپی ممالک فائدہ اٹھائیں گے جہاں ریل کا نظام زیادہ مضبوط ہے ۔ ریل سٹرکچر کو اس راہداری  کا حصہ بنایا جائے گا۔ اسی طرح یورپی منڈیوں میں مشرق وسطیٰ اور بھارتی مصنوعات کی رسائی بھی زیادہ آسان ہو جائے گی ۔ اس حوالے سے  یورپی کمیشن کی صدر ارسولا وان دیر لیین نے میڈیا بریفنگ میں بتایا کہ یہ اب تک کا سب سے سیدھا راستہ ہوگا جس سے تجارت  زیادہ منظم انداز میں فروغ پائے گی ۔ انہوں نے کہا کہ منصوبے  کے تحت ریل کا نظام فروغ پائے گا اور اسی کے تحت تجارت کی جائے گی ۔ اس سے سفری اخراجات کم رہ جائیں گے ۔

امریکا اس منصوبے کو کس نظر سے دیکھ رہا ہے ؟

مبصرین کے مطابق اس منصوبے میں امریکہ کے مفادات زیادہ جڑے ہیں ۔ چین  کے ون بیلٹ منصوبے کے مقابلے میں یہ پراجیکٹ امریکا کے لئے انتہائی اہمیت کا حامل ہے ۔ امریکی قومی سلامتی کے نائب مشیر جان فائنر  کے مطابق  یہ منصوبہ صرف ریل کا نہیں ہے بلکہ اس کے ذریعے شپنگ  کی انڈسٹری بھی پروان چڑھے گی ۔ یہ سمجھنا بہت ضروری ہے کہ یہ منصوبہ کتنا مہنگا، حوصلہ مندانہ اور بے مثال ثابت ہونے والا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ کم آمدنی والے ممالک بھی اس سے فائدہ اٹھائیں گے ۔ مشرق وسطیٰ اس عالمی تجارت کا سہارا بنے گا خود بھی فائدہ اٹھائے گااور دوسروں کو بھی مواقع دے گا۔

 نیا راہدری منصوبہ کیسے کام کرے گا ؟

منصوبے کے تحت بندرگاہوں سے لے کر ریل نیٹ ورک تک سب کچھ تعمیر  کیا جائے گا۔ بھارت اور یورپ کا ریل  نظام اس راہداری میں اہم کردار نبھائے گا۔ مشرق وسطیٰ  میں بھی ریل نیٹ ورک کو توسیع دی جائے گی ۔ چونکہ مشرق وسطیٰ میں تجارت زمینی اور سمندری راستے سے ہوتی ہے اس لئے اس منصوبے کے تحت ان ممالک میں بھی ریل کے نظام کو بہتر کیا جائے گا ۔

ریل نیٹ ورک سے مشرق وسطیٰ کے ممالک بھی آپس میں جڑ جائیں گے اور سامان کی ترسیل آسان ہو جائے گی ۔ اسی منصوبے کے تحت عالمی تجارت کے لئے جہاز رانی کا بھی متبادل روٹ دستیاب ہوگا۔ فی الوقت بھارت اور دیگر ممالک سے آنے والا سامان نہر سویز کے ذریعے ہی بحیرہ روم پہنچتا ہے لیکن نئے روٹ سے جہاز رانی  کے ذریعے تجارت کو فروغ ملے گا۔

امریکہ جانے والا سامان بھی بحیرہ روم کے راستے بحر اوقیانوس میں  جاتا ہے۔ اس طرح مستقبل میں بھارت سمیت دیر قریبی ممالک کے کنٹینرز اسرائیل کی حیفہ بندرگاہ تک ٹرین کے ذریعے  جا سکیں گے جہاں سے آگے یورپ کا سفر شروع ہوگا اس طرح ترسیلی اخراجات آگے رہ جائیں گے ۔ اس وقت بین الاقوامی تجارت کا 10 فیصد سویز نہر  پر انحصار کرتا ہے ۔