مولانا کے پاس کیا آپشن ہیں ؟

ندیم چشتی، دی سپر لیڈ ، اسلام آباد

امیر جے یو آئی ف مولانا فضل الرحمان ایک مرتبہ پھر حکومت کو گھر بھیجنے کی وارننگ دیتے نظر آرہےہیں۔کیا مولانا اس مرتبہ پوری طاقت سے میدان میں اتریں گے ؟ 

یہ سوال پھر سیاسی حلقوں میں گونج رہا ہے ۔یہ بات تو طے ہے کہ مولانا کی اولین ترجیح حکومت کو گھر بھیجنا ہے مگر یہ ہوگا کیسے ؟

مولانا کے پاس پہلی آپشن گرینڈ اپوزیشن الائنس ہے جس کی رو سے تمام حزب اختلا ف کی جماعتیں ایک ہو کر عمران خان  پر دباؤ ڈالیں ۔ تاہم اس پر مولانا کو کامیابی نہیں مل سکی ۔ 

ن لیگ  کی پراسرار خاموشی  بہت سے سوالات کو جنم دے رہی ہے ۔ دوسری جانب مولانا فضل الرحمان  اپوزیشن کی تحریک میں ن لیگ کا مرکزی کردار چاہتےہیں ۔

مولانا ن لیگ کو فرنٹ سیٹ پر دیکھنا چاہتے ہیں

اسی طرح فضل الرحمان دوسری آپشن کے طور پر اپوزیشن کو اکھٹا کر کے اسمبلیاں توڑ کر عام انتخابات کی راہ ہموار کر نے کےلئے بھی کوشاں ہیں۔

اس امر کا اظہا ر وہ اسلام آباد دھرنے میں واضح کر چکے ہیں۔ لیکن قباحت پھر یہی ہے کہ مولانا کے ساتھ چلنے کا وعدہ تو ن لیگ اور پیپلز پارٹی بہت مرتبہ کر چکی ہیں مگر عملی میدان میں یہ وعدہ کھوکھلا دکھائی دیتا ہے ۔

امیر جے یو آئی ف نے ایک روز قبل پریس کانفرنس میں ملین مارچ کی بھی بات چھیڑ دی ہے ۔ فضل الرحمان نے پھر دو سال پہلے ہونے والے عام انتخابات کا ذکر  کیا ۔

انہوں نے دھاندلی کا الزام دوہرایا اور کہا کہ بدترین دھاندلی کرائی گئی۔ مینڈیٹ چھینا گیا ۔ جے یو آئی نے اسی وقت دھاندلی کا شور مچایا تھا اور انتخابات کو چیلنج کیا تھا۔

مولانا نے کہا کہ اب ملک بچانےکے لئے حکمرانوں کو گھر بھیجناناگزیرہو گیا ہے ۔

پی ٹی آئی اور پاکستان اب ساتھ نہیں چل سکتے ، مولانا

تحریک انصاف اور  پاکستانی ساتھ نہیں چل سکتے ۔ انہوں نے مزید  کہا کہ پی ٹی آئی کے دور حکومت میں عوام بدحال ہو چکے ہیں ۔

ہر طرف غربت نظر آرہی ہے ۔ آمرانہ پالیسیوں  کے خلاف پہلے بھی لڑے اب بھی لڑیں گے ۔امیر جے یو آئی نے ملکی خارجہ پالیسی پر بھی تنقید کی ۔ کہا حکومت تو سری نگر فتح کرنے کی باتیں کر رہی تھی؟ کیا بنا نعرے کا ؟

حکمرانوں نے   کشمیر کا سودا کر دیا  ۔ پاکستان کو دنیا بھر میں تنہا کرنے کی  سازش کی جارہی ہے ۔

مولانا کی تیز باتیں تو روایتی ہیں مگر ذرائع بتاتے ہیں کہ پیپلز پارٹی بھی مولانا کی طرح ن لیگ کے موڈ پر انحصار کر رہی  ہے ۔

یوں یہ کہا جا سکتاہے کہ اگر ن لیگ اور پیپلز پارٹی ایک پلیٹ فارم پر آگئے تو مولانا اپنی سٹریٹ پاور دکھاتے ہوئے حکومت کو مشکل میں ڈال سکتے ہیں  اور یہ سیاسی وار پہلے سے زیادہ خطرناک ہوسکتا ہے ۔