موٹروےپرگینگ ریپ پرپنجاب حکومت نے خودہی معاملہ الجھادیا

موٹروےپرگینگ ریپ پرپنجاب حکومت نے خودہی معاملہ الجھادیا ہے۔وزیراعلیٰ پنجاب ، وزیر قانون اور آئی جی کی پریس کانفرنس پر ہی سوالیہ نشان لگ گئے ۔

سپر لیڈنیوز کے مطابق اس وقت پنجاب پولیس ، سی آئی ڈی ، آئی ایس آئی ، سپیل برانچ ، فرانزک ڈیپارٹمنٹ کی کل 28ٹیمیں ہائی پروفائل کیس کی گتھی سلجانے میں مصروف ہیں ۔

ہفتے کے روز بھی سارا دن ٹیمیں جائے وقوعہ کا دورہ کرتی رہیں ۔ اور شواہد جمع کرنے کی کوشش کی جاتی رہی ۔ شیخوپورہ کے قریب دیہات میں آپریشن بھی کیا گیا۔ جس میں تین مشتبہ افراد کے زیر حراست ہونے کی اطلاع ہے ۔

سپر لیڈ ذرائع کے مطابق ایف آئی آر میں درج مدعی بھی واقعے کے بعد سے غائب ہے ۔ جس پر سوالات اٹھ رہے ہیں ۔ جائے وقوعہ پر سب سے پہلے کون پہنچا اور کیسے لوکیشن کا اندازہ ہوا؟ ایسے میں ہفتے کی دوپہر وزیر اطلاعات پنجاب فیاض الحسن چوہان نے دعویٰ کیا کہ پولیس ملزموں تک پہنچ گئی ہے ۔ خوشخبری قریب ہے ۔ شام کو وزیراعلیٰ ، وزیرقانون اور آئی جی اہم پریس کانفرنس کریں گے ۔

ملزموں کی عدم گرفتاری پرہی بڑی پریس کانفرنس ؟

اس طے شدہ پریس کانفرنس سے پہلے یہ تاثر دیا گیا جیسے ملزم گرفتار ہو چکےہوں بس اعلان باقی ہو۔اس پریس کانفرنس کے انتظار میں ایک نیوز چینل نے تو یہاں تک “ذرائع”کے حوالے سے خبرچلا دی کہ ایک ملزم عابد پکڑا گیا ہے ۔اس دوران وزیراعلیٰ پنجاب کی زیر صدارت اجلاس ہوا جس میں آئی جی پنجاب نے بریفنگ دی ۔ وزیراعلیٰ نے اجلاس کےدوران آئی جی پنجاب ، سی سی پی او اور پولیس ٹیم کو شاباش دی اور کہا کہ 72گھنٹوں میں ہی ٹارگٹ تک پہنچنا قابل تحسین ہے۔

دوسری جانب ہفتے کی شام کو پریس کانفرنس میں نہ تو ملزموں کی گرفتاری کا اعلان ہوا۔ نہ ہی ملزموں کے قریب پہنچنے کے کوئی ٹھوس شواہد دیئے گئے ۔ بلکہ آئی جی پنجاب نے خود اعتراف کرلیا کہ ملزم عین گرفتاری کےد وران کھیتوں میں بھاگ گئے۔ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ ملزموں کا ڈیٹا لیک ہونے سے ملزموں کو بھاگنے میں مدد ملی ۔

ملزموں کی گرفتاری کرانے پر 25لاکھ روپے کا انعام

اس موقع پر وزیراعلیٰ پنجاب نے کہا کہ ملزموں کی اطلاع دینے اور گرفتاری میں مدد دینے والے کو پچیس لاکھ روپے انعام دیئے جائیں گے ۔انہوں نے کہا کہ ہم ملزموں کے گاؤں پہنچ چکے ہیں ۔ ان کے گرد گھیرا تنگ ہے ۔ جلد پکڑ لیا جائےگا۔ اس طرح پریس کانفرنس سے جڑی امیدیں پوری نہ ہو سکیں ۔ وزیراعلیٰ کی خود پریس کانفرنس میں شرکت سے کئی سوالات کھڑے ہوگئے ۔ کیا صرف ملزموں کے بھاگنے پر پریس کانفرنس کی گئی ؟

مبینہ ملزموں کا ڈیٹا لیک ہونا ان کے فرار کا سبب بنا۔۔

شہزاد اکبر اور سی سی پی او لاہور نے ایک روز قبل میڈیا سے گفتگو کی تاہم پنجاب حکومت نے سی سی پی او کو اس معاملے پر بات کرنے سےروک دیا اور متنازع بیان پر شوکاز نوٹس بھی بھجوا دیا۔

سپر لیڈ نیوز سے اس حوالے سے کریمینل کیسز کے ماہرایڈووکیٹ اظہر عباس سے گفتگو کی ۔ انہوں نے بتایا کہ مدعی سے زیادہ ریاست کا کیس میں گہری دلچسپی لینا اہم ہے ۔یہ کیس ایک ہائی پروفائل کیس بن گیا ہے اور نئے آئی جی پنجاب کےلئے بھی ٹیسٹ کیس ہے ۔ ایسے میں پوری پنجاب حکومت کا معاملے میں شامل ہونا یہ ظاہر کرتا ہے کہ ملزم کی ہر صورت گرفتاری ناگزیر ہے ۔

یہ بھی پڑھیئے:لاہور موٹر وے پر خاتون سے بچوں کے سامنے زیادتی

اس کیس میں پہلے ہی عالمی سطح پر بدنامی ہورہی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ فرانزک نمونوں کی شناخت کے بعد محکمہ پولیس کو ملزموں کے کوائف پوشیدہ رکھنے چاہئیں تھے ۔تاکہ ملزموں تک پہنچنا آسان ہوتا مگر پولیس یا فرانزک لیبارٹری سے ڈیٹا لیک ہونا سوال طلب ہے ۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ گرفتاری ڈالنے کے بعد ہی پریس کانفرنسز کی جانی چاہئیں تاہم یہ بات یقینی ہے موٹروےپرگینگ ریپ پرپنجاب حکومت نے خودہی معاملہ الجھادیا