نوازشریف کی تقریرکےوہ حصےجس کی آڈیوبندکرناپڑی

دی سپر لیڈ ڈاٹ کام ، اسلام آباد۔ نوازشریف کی تقریرکےوہ حصےجس کی آڈیوبندکرناپڑی گئی ۔ نوازشریف اپنی تقریر کےد وران واضح اور دو ٹوک موقف پر ڈٹے رہے ۔ تاہم پاکستانی  میڈیا کو محتاط رہنا پڑا۔

سپر لیڈ نیوز کے مطابق نوازشریف کی تقریر کےد وران جیسے ہی ملکی اداروں پر براہ راست بات آئی تو پاکستانی ٹی وی چینلز میں سے بیشتر نے آڈیو بند کر دی ۔ ایسا عام طور پر تب ہوتا ہے جب کوئی  متنازع بات کی جائے یا ملکی اداروں پر براہ راست تنقید کی جائے ۔ اس سے پہلے مریم نواز کی ایک پریس کانفرنس دکھانے پر پیمرا نے کئی پاکستانی چینلز کو شو کاز نوٹس بھجوائے تھے۔ اسی لئے نوازشریف کی تقریر کے بعض حصوں کو بھی سنسر کرنا پڑا۔

محکمہ زراعت تو آپ سمجھتے ہی ہیں ،نوازشریف

نوازشریف نے دوران تقریر کہا کہ جمہوریت کو کمزور کرنے اور اپنا مخصوص ایجنڈے کو نافذ کرنے کے لیے ‘تقسیم کرو’ کی پالیسی معمول بن چکی ہے۔ کچھ عرصے قبل تک یہ تقسیم سیاست دانوں تک محدود تھی۔۔ جنہیں مختلف مخصوص حلقوں کی طرف سے بلایا، ڈرایا اور دھمکایا جاتا تھا۔۔  یہ طریقہ سیاسی جماعتیں توڑنے، فارورڈ بلاک بنانے یا پھر مرضی کی جماعتیں بنانے کے لیے استعمال ہوتا رہا۔۔ اور آج بھی ہوتا ہے، محکمہ زراعت کو تو آپ سمجھتے ہی ہیں؟

انہوں نے کہا کہ ہمارے دفاع کی مضبوطی اور قومی سلامتی کے لیے سب سے زیادہ اہم یہ ہے کہ ہماری مسلح افواج آئین پاکستان کی پاسداری کریں ۔  اپنے دستوری حلف اور قائد اعظم  کی تلقین کے مطابق خود کو سیاست سے دور رکھیں ۔ نوازشریف نے مزید کہا کہ فوج  عوام کے حق حکمرانی میں مداخلت نہ کرے ۔  کسی کے کہنے پر وزیراعظم ہاؤس کے دروازے پھلانگ کر اس میں داخل ہوکر بندوق کی نوک پر وزیراعظم کو گرفتار نہ کرے ۔

عاصم باجوہ کی دولت پر سوال اٹھانے کی کسی میں ہمت نہیں ، نوازشریف

نوازشریف  نے جب لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ عاصم سلیم باجوہ کا نام لیا تو تب بھی آڈیو بند کر کے اینکر ز کی کمنٹری سننے کو ملی ۔ انہوں نے کہا کہ 2018 میں سینیٹ انتخابات سے کچھ عرصے قبل ایک مذموم سازش کی گئی۔۔اس مذموم سازش کے ذریعے بلوچستان کی صوبائی حکومت گرادی گئی۔۔ جس کا اصل مقصد سینیٹ کے انتخابات میں سامنے آیا۔  اس سازش کے کرداروں میں لیفٹیننٹ جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ۔۔ جو اس وقت کے کمانڈر سدرن کمانڈ تھے کا نام بھی آتا ہے۔۔

یہ وہی عاصم سلیم باجوہ صاحب  ہیں جن کے خاندان کی بے پناہ دولت اور دنیا بھر میں پھیلے ہوئے اثاثوں کی تفصیلات پوری قوم کے سامنے آچکی ہے۔حقائق کو نہ صرف چھپایا گیا بلکہ مبینہ طور پر ایس ای سی پی کے سرکاری ریکارڈ میں بھی ردوبدل کیا گیا۔  پندرہ سے بیس سال کے عرصے میں اربوں روپے کے یہ اثاثے کہاں سے بن گئے؟ یہ پوچھنے کی کسی کی مجال نہیں۔  میڈیا پر خاموشی چھا گئی، نہ نیب حرکت میں آئی نہ کسی عدالت نے نوٹس لیا اور نہ ہی کوئی جے آئی ٹی بنی ۔ اسی طرح کوئی ریفرنس دائر نہیں ہوا۔

عمران خان میں بھی سوال اٹھانے کی جرات نہیں،نوازشریف

انہوں نے کہا کہ  نہ کوئی نگران جج بیٹھا، نہ کوئی پیشی ہوئی۔ بڑے دعوے کرنے والے  عمران خان نے بھی ان اثاثوں کے ذرائع پوچھنے کی جرات تک نہیں کی ۔۔بلکہ ایک پل میں انہیں ایمانداری کا سرٹیفکیٹ  جاری کردیا گیا۔میڈیا پر پہلی بار اس اسکینڈل کا ذکر تب ہوا جب عاصم سلیم باجوہ خود ٹی وی پر آئے۔

نوازشریف نے جارحانہ گفتگو کے دوران مزید کہا کہ یہاں انصاف پسند اور امانت دار نہیں بلکہ ایسے منصف تلاش کیے جاتے ہیں جو ان کے ہر جائز اور ناجائز مطالبات تسلیم کریں۔  نظریہ ضرورت بنائیں ۔ آئین توڑیں آمروں کے اقدامات کو قانونی تحفظ دیں ۔ ان کے گلے میں ہار پہنائیں اور انہیں خوش آمدید کہیں کہ۔۔ آپ نے بہت اچھا کام کیا ہے۔  یہ کام تو پہلے ہوجانا چاہیے تھا۔۔ آپ نے تو مارشل لا دیر سے لگایا۔۔

سرکاری ایجنسیوں پر بات ہوتے ہی آڈیو بند کرنا پڑی

نوازشریف  نے سرکاری ایجنسیوں کی بات کی تو تب بھی ٹی وی چینلز کو آواز دبانا پڑی ۔ نوازشریف نے کہا کہ  طاقت سے میڈیا کی زبان بندی کہاں کا انصاف ہے؟ صحافیوں بالخصوص خواتین صحافیوں کو سرکاری ایجنسیز کا اٹھا کر لے جانا اورتشدد کا نشانہ بنانا، بزدلانہ اور انتہائی قابل مذمت ہے۔ سینئر صحافیوں کوچینلز یا اخبارات کی ملازمت سے برخاست کرادینا، بےبنیاد مقدمات میں الجھا دینا اور قید میں ڈال دینا کیا ایک جمہوری ریاست کا طریقہ  ہے ؟

گیلانی نے بھی کہا تھا یہاں ریاست کے اندر ایک ریاست ہوتی ہے ،نوازشریف

انہوں نے کہا کہ  عوام کی مقدس امانت میں خیانت کی جاتی اور انتخابی عمل سے پہلے یہ طے کرلیا جاتا کہ کسے جتانا اور ہرانا ہے ۔۔ اس طرح انتخابات میں دھاندلی سے مطلوبہ نتائج حاصل کرلیے جاتے ہیں۔ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کس طرح سے عوام کو دھوکا دیا جاتا ہے اور مینڈیٹ چوری کیا جاتا ہے۔

نوازشریف نے مزید کہا کہ  یہاں یا تو مارشل لا ہوتا ہے یا پھر منتخب جمہوری حکومت سے کہیں زیادہ طاقت ور متوازی حکومت قائم ہوجاتی ہے اورایک متوازی نظام چلتا ہے۔ ایک مرتبہ یوسف رضا گیلانی نے کہا تھا کہ یہاں ریاست کے اندر ریاست ہے جسے برداشت نہیں کیا جاسکتا۔۔ تاہم دکھ کی بات یہ ہے کہ اب معاملہ ریاست کے اوپر ریاست تک جاپہنچا ہے۔

نوازشریف نے یہ بھی کہا کہ ملک میں خارجہ پالیسی کو بچوں کا کھیل بنا دیا گیا ہے۔  یہاں موجود سابق وزرائے اعظم جانتے ہیں کہ سول حکومت کے گرد کس طرح کے شکنجے کس لیے جاتے ہیں، کس طرح ایسی کارروائیاں ہوجاتی ہیں جس کا وزیراعظم، صدر کو علم ہی نہیں ہوتا اور پھر ان کارروائیوں کی بھاری قیمت ریاست کو ادا کرنا پڑتی ہے۔

یہ بھی پڑھیئے : شاہ محمود نے کس کے کہنے پر سعودیہ مخالف بیان دیا ؟

ایجنسیوں  کے اہلکاروں پر مشتمل جے آئی ٹی بنی۔۔ ثبوت کسی کے خلاف کچھ نہیں تھا لیکن پراپیگنڈا مشینوں کے ہاتھوں مجھے بھی غدار اور ملک دشمن ٹھہرادیا گیا۔ وزیراعظم کے احکامات کو ایک ماتحت ادارے کی طرف سے کی گئی ٹوئٹ میں ‘مسترد’ کا عنوان دے دیا گیا۔

چیئرمین نیب نازیبا حرکت کرتے پکڑے گئے مگر سوال اٹھانے کی ہمت کسی میں نہیں ، نوازشریف

نوازشریف نے چیئرمین نیب کے کردار پر بھی سوال اٹھائے مگر عوام کی بڑی تعدادنوازشریف کو سن نہ سکی ۔ انہوں نے کہا کہ چیئرمین جاوید اقبال اپنے عہدے اور اختیارات کا انتہائی نازیبا اور مذموم استعمال کرتے ہوئے پکڑا جاتا ہے مگر نہ تو کوئی انکوائری ہوتی اور نہ ہی کوئی ایکشن لیا جاتا ہے جبکہ نہ ہی شفافیت کے دعویدار عمران خان پر کوئی جوں رینگتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس کے باوجود یہ شخص ڈھٹائی سے اپنے عہدے پر براجمان، انتقام کے ایجنڈے پر عمل کرتا ہے لیکن بہت جلد ان سب کا یوم حساب آئے گا۔